ہم نے جب ایم ایس سی کیا تو نئی بھرتیاں بند ہو گئی تھیں۔ا س لئے ہم ایم ایس سی کرنے کے بعد نکمے ہی پھر رہے تھے کہ ہمارے ایک دوست جو یو نیورسٹی کے اسلامیہ کالجیٹ سکول میں بحیثیت استاد کام کر رہے تھے ہمیں بتایا کہ اسلامیہ کالجیٹ سکول میں ایک ریاضی کے استاد ریٹا ئر ہونے والے ہیں اگر ہم پرنسپل سے مل لیں تو شائدوہ آپ کو بحیثیت ٹیچر رکھ لیں کیونکہ ان کو ایک ریاضی کے استاد کی ضرورت ہو گی۔ چنانچہ ہم اس وقت کے پرنسپل جنا ب سکوارڈن لیڈر ولی الدین صاحب سے ملے اور ان سے اپنا مدعا بیان کیا تو انہوں نے کمال مہربانی سے ہمیں اپنے وائس پرنسپل کے حوالے کیا کہ وہ ہمیں ایک کلاس میں لے جائیں اور ہمارے پڑھانے کا ٹسٹ لے لیں۔ ہمیں وہ اپنے نویں سی کے کمرے میں لے گئے اور پڑھانے کو کہا۔ ہم نے بچوں کو ریاضی کے چند سوال سمجھائے اور ا سکے بعد ہمیں پھر پرنسپل صاحب کے سامنے پیش کیا گیا جنہوں نے ہمیں دوسرے دن سے کلاس لینے کے لئے بلوا لیا۔ یوں ہم ایک استاد کی حیثیت سے
اسلامیہ کالجیٹ سکول میں بھرتی ہو گئے۔ اب سکول میں تو بی ایڈ ہونا بھی ضروری ہوتا ہے اس لئے ہمیں بھرتی تو کر لیا مگر اس حکم کے ساتھ کہ ہمیں آنے والے سال بی ایڈ کرنا ہو گا۔ سو ہم باقاعدہ طور پر ایک استاد کی حیثیت سے نوکر ہو گئے۔ یہ ایک بہت ہی اچھا تجربہ تھا کہ یہاں میٹرک کی کچھ سیکشن اردو میڈیم اور کچھ انگلش میڈیم ریاضی پڑھ رہے تھے اس لئے ہمیں اردو اور انگلش دونوں زبانوں میں پڑھانے کا تجربہ حاصل ہوا۔ چونکہ سکو ل میں پڑھانے کے لئے بی ایڈ ہونا ضروری تھا اس لئے اگلے سال ہم نے بی ایڈ میں داخلہ لے لیا۔ یہاں اورطلبا ء کے ساتھ ساتھ ہمارا تعارف ایک ایسے طالبعلم سے ہوا کہ جو کسی سکول سے بی ایڈ کرنے آیا تھا۔ یہ طالب علم شعر و شاعری میں بھی ہاتھ مار رہا تھا اور بہت اچھے شعر کہتا تھا۔ یہ چونکہ ہزارہ سے تعلق رکھتا تھا اس لئے ہم جلد ہی دوستی کے رشتہ میں بندھ گئے۔ ابھی بی ایڈ کی طالب علمی میں ہی تھے کہ ہماری تقرری گورنمنٹ کالج صوابی میں لکچرر کی حیثیت سے ہوگئی اور یوں ہماری ایک اچھی رفاقت کو کچھ دن کے لئے جدائی کا دکھ سہنا پڑا۔ صوابی کالج میں تین سال گزارنے کے بعد ہمارا تباد لہ ہری پور کالج میں ہو گیا۔ ہری پور کالج میں ہمیں بہت ہی پیارے دوست مل گئے۔ جن میں فلسفے کے استاد ارشاد اعوان سے ہماری گہری رفاقت ہو گئی اور ہر دن تیسرا پیریڈ ہمارا خالی ہوتا تھا جس میں ہم ذرا کینٹین میں اپنی تھکاوٹ دور کیا کرتے تھے۔ ارشاد اعوان صاحب کا تو مستقل ٹھکانہ ہی کینٹین تھا اور وہ اپنی دو چار لڑکوں کی کلاس بھی وہیں لیا کرتے تھے۔ ایک دن ہم کینٹین میں بیٹھے تھے ایک جانب سے خوش
وخوش کی آواز آئی اور جناب شاکر کا ورود کنٹین میں ہوا اور یوں کافی عرصہ کے بعد ہم پھر سے ایک جگہ مل بیٹھے۔ کنٹین ہماری چائے کے ساتھ ساتھ سیاسی گفتگو کا بھی ٹھکانہ تھا۔ کچھ عرصہ بعد ہمارا تبادلہ ایبٹ آباد کالج میں ہو گیا اور اور چندد ن بعد شاکر صاحب بھی اسی کالج میں آ گئے۔ یہاں کچھ دن مجالس جنا ب آصف ثاقب کی لیبارٹری میں منعقد ہوتی رہیں اور ہم نے آصف ثاقب اور ارشاد شاکر کی شاعری سے خوب لطف لیا اور مگر پھر ہمارا تبادلہ مانسہرہ کالج میں ہو گیا اور ایک دو ماہ بعد ارشاد شاکر بھی ہمارے کولیگ بن گئے۔ یوں ہمارا ساتھ ایک برادرانہ رشتے میں بد ل گیا۔کچھ عرصہ بعد ہم نے ریٹائر منٹ لے لی اس لئے کہ ہمارے ایک کولیگ ڈائریکٹر آف ایجوکیشن بن گئے۔ ایک دن ان سے ایبٹ آباد تبادلے کی ریکوسٹ کر دی۔ انہوں نے اتنا پھیکا جواب دیا کہ دلبرداشتہ ہو کر اُسی دن ہم نے ریٹائرمنٹ کے لئے درخواست دے د ی اور یوں ایک دور کا خاتمہ ہوا جہاں مختلف افراد سے ملاقاتیں ہوئیں اور اب ان کی یادیں زندگی کا اثاثہ ہیں۔