یوکرین روس کو اپنے تمام تر علاقوں سے باہر نکال دینا چاہتا ہے، جس میں کریمیا کا ریجن بھی شامل ہے یوکرین کے مطابق روس نے2014 ء میں یوکرینی علاقے کریمیا پر غیر قانونی طور پر قبضہ کر کے اسے روس میں شامل کر لیا تھا‘یوکرینی صدر نے اپنے ہفتہ وار ریڈیو پیغام میں عوام سے مخاطب ہوتے کہا ”کریمیا میں جنگ شروع ہو چکی ہے‘ یہ وہیں ختم بھی ہو جائیگی“ ناقدین کے مطابق دراصل انہوں نے واضح کیا ہے کہ حالیہ روسی جارحیت کا مقابلہ کرتے ہوئے انکی حکومت کریمیا کو بھی واپس اپنا حصہ بنانا چاہتی ہے لیکن یہ کوئی آسان کام ہرگز نہیں ہے ان کے اس خطاب سے کچھ دیر پہلے ہی جزیرہ نما کریمیا کے مغربی حصے میں واقع ایک روسی ائر بیس پر حملے شروع ہو گئے۔
اطلاعات ہیں کہ ان حملوں کی وجہ سے روس کے نو جنگی طیارے تباہ ہو گئے جبکہ اس فوجی اڈے کو شدید نقصان پہنچا‘یوکرین کی حکومت نے کریمیا میں روسی فوجی بیس پر ہوئے ان حملوں کی سرکاری طور پر ذمہ داری قبول نہیں کی ہے‘ تاہم خیال کیا جا رہا ہے کہ اس کے پیچھے دراصل یوکرینی فوجی ہیں، جو مغربی ممالک سے جدید اسلحہ حاصل کر چکے ہیں‘کریمیا میں ہوا یہ حملہ باقاعدہ فوجی کاروائی معلوم نہیں ہوتی ہے لیکن روسی قبضے کے بعد کریمیا میں تشدد کی یہ اولین کاروائی ہے۔ روس نے آٹھ برس قبل اس یوکرینی علاقے میں ناجائز قبضہ کرتے ہوئے اس کا روس سے الحاق کروا لیا تھا، جسے بین الاقوامی کمیونٹی تسلیم نہیں کرتی ہے‘کریمیا میں بمباری پر شدید روسی ردعمل سامنے آ سکتا ہے‘ ماسکو کے نزدیک یوکرینی علاقوں میں جنگ اور بات ہے لیکن کریمیا پر حملہ سنگین نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔
روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے کریمیا کو روس میں شامل کرنے کیلئے ایک ریفرنڈم کروایا تھا، جس کے بعد اس کا روس میں الحاق کر دیا گیا تھا لیکن بین الاقوامی کمیونٹی نے اس عمل کو تسلیم نہیں کیا تھا‘روسی موقف ہے کہ کریمیا پر حملے کا مطلب ہے کہ یہ جنگ اب روسی علاقوں میں بھی پہنچ گئی ہے‘ یوں ماسکو حکومت یوکرین جنگ میں مزید شدت پیدا کر سکتا ہے‘ تاہم یوکرین بھی کریمیا کو اپنا ہی حصہ قرار دیتا ہے‘یوکرینی حکومتی عہدیدار متعدد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ وہ کریمیا کو روسی جبر سے جلد ہی آزاد کرا لیں گے اور روس کو شکست سے دوچار کریں گے۔روس کے لئے کریمیا کا علاقہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ ماسکو کے نزدیک اس مخصوص مقابلے میں یوکرین کی کوئی اہمیت ہے ہی نہیں‘ کریمیا کا علاقہ دو صدیوں تک روسیوں کے زیر تصرف رہا‘ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں روسی نسل کے باشندوں کی اس علاقے میں آباد کاری کی گئی۔ بیسویں صدی میں سوویت لیڈر اسٹالن نے بھی یہ سلسلہ جاری رکھا۔