دیکھاجائے تو پاکستانی سائنسدان کسی سے کم نہیں ہیں اور انہوں نے وہ کارنامے انجام دئیے ہیں جن پر بجا طور پر فخر کیا جاسکتا ہے۔ حال ہی میں پاکستان ایگری کلچر ریسرچ کونسل کے سائنسدانوں نے مقامی فارمز میں تحقیق کرتے ہوئے لوبیا کی چھ نئی اقسام متعارف کروائی ہیں، جن کی پیداوار سے نا صرف خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں زیر کاشت رقبہ بڑھے گا بلکہ کسانوں کی آمدنی میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔ اس سے پہلے فرینچ بین سمیت لوبیے کی کئی انتہائی خوش ذائقہ اقسام بیرون ملک سے در آمد کی جا رہی تھیں، جس پر کثیر زرمبادلہ خرچ ہوتا تھا۔حافظ اسد اللہ پاکستان ایگری کلچر ریسرچ کونسل سے منسلک سینئر سائنسدان ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پبلک سیکٹر کے پانچ سالہ ترقیاتی پروگرام کے تحت 2019 میں مختلف اجناس کی مقامی کاشت کو 30 فیصد تک بڑھانے کے لئے تحقیقی منصوبے کا آغاز کیا گیا تھا۔ ان میں چنے، مونگ، مسور اور ماش کی دالوں کے علاوہ لوبیا بھی شامل تھا۔
نیشنل ایگری ریسرچ کونسل ہر برس ان کی پیداوار 15 سے 20 فیصد تک بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس منصوبے کے تحت نیوکلیئر انسٹی ٹیوٹ آف فوڈ اینڈ ایگری کلچر پشاور نے لوبیا کی لال اور زرد اقسام کی کامیاب کاشت کا آغاز کیا، جن کی فی ایکڑ پیداوار 2000 کلوگرام ہے۔ اس کے ساتھ ہی خیبر پختونخوامیں دیگر ہل سٹیشنز پر تحقیق کرتے ہوئے مانسہرہ ایگری کلچر ریسرچ سٹیشن نے لوبیے کی ایک اور نئی قسم "ہمالیہ ون" کے نام سے متعارف کروائی، جس کی فی ایکڑ پیداوار 1600 کلوگرام ہے۔ سوات ایگری کلچر سٹیشن نے تحقیق میں مزید پیش رفت کرتے ہوئے گرین ہلز، سوات ریڈ اور گوریلا کے نام سے لوبیے کی مزید تین اقسام کاشت کیں، جن کی فی ایکڑ پیداوار بالترتیب 1600، 1500 اور 2200 کلوگرام تک ہیں۔پاکستان ایگری کلچر ریسرچ کونسل کی ایک تحقیق کے مطابق بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث ماضی (2007-2008) میں پاکستان میں مختلف اجناس کی پیداوار 872 ایکڑ سے گھٹ کر 789 ایکڑ رہ گئی تھی، جس کے بعد نیشنل ایگری کلچر ریسرچ کونسل نے زرعی ترقیاتی شعبے کے مختلف سپانسرز کی مدد سے نئے منصوبوں کا آغاز کیا۔
تازہ ترین دستیاب اعداد و شمار کے مطابق ماش کی دال کی کاشت 1482 ایکڑ، چنے 2717 ایکڑ، اور مسور کی دال کی پیداوار 247 ایکڑ تک بڑھ چکی ہے۔ اس دوران مونگ کی دال کی کاشت بڑھ کر 267،000 ٹن تک پہنچ گئی ہے، جو پاکستان کی ضروریات 180،000 ٹن سے بہت زیادہ ہے اور اضا فی مقدار بر آمد کی جا رہی ہے۔پاکستان ایگری کلچر ریسرچ کونسل کے مطابق فی الوقت لوبیا سب سے زیادہ جنوبی پنجاب میں کاشت کیا جا رہا ہے، جہاں اس کی کل پیداوار کا 85 فیصد حصہ کاشت ہوتا ہے۔ نئے منصوبے کے تحت پی اے آر سی بلوچستان اجناس کی کاشت کو بڑھانے کے لیے مسلسل سرگرم ہے، جس کے بعد ان اجناس خصوصا لوبیے کی پیداوار میں مزید اضافے کی توقع ہے۔ بلوچستان کی مٹی اور آب وہوا فرینچ لوبیا کی کاشت کے لیے انتہائی موافق سمجھی جاتی ہے۔پاکستان ایگری کلچر ریسرچ کونسل سے وابستہ سائنسدان خالد محمود کھوکر کے مطابق لوبیے کی مختلف اقسام خصوصا فرینچ بینز میں روزانہ کی صحت مند خوراک کے اجزا شامل ہوتے ہیں، جو جسم کی درست نشونما اور میٹابولزم کے لیے لازمی ہیں۔
لوبیے میں مختلف وٹامن جیسے اے، سی، ڈی، ای، تھائی مائن، پینٹوتھینک ایسڈ، کیلشیم، فاسفورس، زنک اور دیگر تمام ضروری غذائی اجزا شامل ہوتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی ان میں غذا کو ہضم کرنے میں مدد دینے والے فائبرز ہوتے ہیں، جو کولیسٹرول اور شوگر لیول کو کم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ لوبیے میں موجود رائبو فلاوین مائیگرین اٹیک میں متاثرہ شخص کی قوت برداشت بڑھاتا ہے۔ اسی لیے ماہر غذائیات لوبیے اور دیگر پھلی والی غذؤاں کو روز مرہ کی خوراک میں شامل کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق لوبیے میں آئرن کی وافر مقدار ہوتی ہے، جو جسم کو صحت مند اور توانا رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی لوبیے میں موجود کاپر ہوموگلوبن کو ریگولیٹ رکھتا ہے اور وٹامن سی کی وافر مقدار بیکٹیریا اور وائرس کے خلاف جسم کے مدافتی نظام کو مضبوط بناتی ہے۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کوشش کی جائے تو ہم زرعی شعبے میں خودکفالت او ترقی سے وہ مقام حاصل کرسکتے ہیں جہاں ہم خوراک درآمد کرنے کی بجائے برآمد کریں گے۔