زرعی شعبے کی حالت زار 

وزیر اعظم کی زیر صدارت ہونے والے ایک اعلی سطحی اجلاس میں ملک میں ہنگامی بنیادوں پر زرعی اصلاحات کے نفاذ کا اعلان کیا گیا ہے، زراعت کو وطن عزیز میں معیشت کی ریڑھ کی ہڈی قرار دیا جاتا ہے اور حکومتی سطح پر ایسے بیانات آتے رہتے ہیں، جو اس شعبے میں انقلابی تبدیلیوں کے عزائم کو اُجاگر کرتے ہیں، مگر زراعت کی حقیقی صورت ان دعوؤں اور وعدوں سے مطابقت نہیں رکھتی اور ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم بدستور زرعی اجناس کے بڑے درآمد کنندگان میں شامل ہیں، خوراک کی دستیابی کے مسائل اور مہنگائی ہمارے ہاں کے دیرینہ مسائل ہیں، زراعت کی ترقی کے حکومتی فیصلے اپنی جگہ مگر اس شعبے کیلئے اقدامات کی جو صورت ہے، وہ کھاد، بیج، قرضے اور زراعت کو دیرینہ ترقی یافتہ اور جدید بنیادوں پر استوار کرنے میں ناکامی کی صورت میں واضح ہے اور اس کا نتیجہ زرعی پیداوار میں کمی کی صورت میں نکل رہا ہے۔ موسمی تغیرات جن کی شدت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، زرعی سرگرمیوں پر شدید منفی اثرات کے حامل ہیں مگر زراعت کے بڑھتے ہوئے اخراجات کی وجہ سے بھی خوراک کا پیداواری شعبہ شدید مشکلات کا شکار ہے۔

 گذشتہ سال گندم کی بوائی کے دنوں میں کاشتکاروں نے کھاد کے شدید بحران کا سامنا کیا، جس کے نتیجے میں اس سال ملک میں گندم کی پیداوار کا ہدف حاصل نہ کیا جا سکا اور اب تیس لاکھ ٹن گندم درآمد کرنا پڑے گی، خوراک کے پیداواری شعبے کی جانب عدم توجہی کا نتیجہ خوراک کی درآمدات میں اضافے کی صورت میں سامنے آتا ہے، گزشتہ مالی سال ملک کی خوراک کی درآمدات کا حجم 9 ارب ڈالر رہا جبکہ ایک سال پہلے یہ 8 ارب 34 کروڑ ڈالر تھا۔ ایک ایسا ملک جو زرعی معیشت کا حامل ہو، جہاں کا وسیع زرعی رقبہ اور پیداواری شعبہ بلاشبہ اس قابل ہو کہ ملک کی خوراک کی ضروریات کو پورا کر سکے، اس ملک کو سالانہ اربوں ڈالر خوراک کی درآمد پر خرچ کرنا پڑے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے ملکی زراعت کی ترقی کیلئے سنجیدہ کوششیں نہیں کیں۔

 اب موجودہ حکومت ہنگامی بنیادوں پر اصلاحات اور کسانوں کو کم لاگت پر معیاری بیج اور کھاد مہیا کرنے کے لئے اقدامات کر رہی ہے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ مقامی سطح پر معیاری بیج کی پیداوار کے لئے زرعی تحقیقاتی اداروں کو سہولیات فراہم کی جائیں گی، حکومت نے کاشتکاروں کو جدید مشینری اور قرضوں کی سہولت کا بھی وعدہ کیا ہے، یہ اقدامات اور منصوبے تو بہت اچھے ہیں مگر ان کو عملی جامہ پہنانے میں تیزی کی ضرورت ہے کیونکہ وقت کم اور مقابلہ سخت کے مصداق چیلنجز بڑے ہیں۔اس وقت تو صورتحال یہ ہے کہ ملکی زراعت بدستور بدحالی کا شکار ہے، بلکہ وقت کے ساتھ ان مشکلات میں اضافہ ہوا ہے اور توانائی کی انتہائی بلند سطح کی قیمتوں کے ساتھ کاشتکاری عملًا خسارے کا سودا ہے۔

 ان حالات میں زراعت کے لئے فیصلہ کن اقدامات کی ضرورت ہے اور ایسا نہ ہونے کی صورت میں آنے والے چند برسوں میں کاشتکاری کے رجحان میں مزید کمی آ جائے گی، ہماری خوراک کی درآمدات سال بہ سال بڑھتی جائیں گی، اس کا دوسرا نقصان زرعی شعبے کے ساتھ وابستہ افرادی قوت کی بے روزگاری کی صورت میں نکلے گا، ان بحرانوں سے نمٹنے کا مناسب طریقہ یہی ہے کہ زرعی پیداواری شعبے کیلئے مخلصانہ کوششیں کی جائیں تاکہ خوراک کی خودکفالت حاصل ہوسکے۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ زراعت کا شعبہ اگر ترقی یافتہ ہوتو یہ پورے ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال سکتا ہے۔ اس وقت ہالینڈ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جیسے کئی ممالک ہیں جنہوں نے زراعت کو ترقی یافتہ بنا کر خوشحالی اور ترقی کی بلندیوں کو چھوا ہے اور زرعی برآمدات سے زرمبادلہ کما رہے ہیں۔