دیر پا معاشی پالیسی ناگزیر

مشکل معاشی حالات میں  خوش آئند پیش رفت چین کے بینکوں کے کنسورشیم کی جانب سے پاکستان کو2.3ارب ڈالر قرض دینے کے معاہدے پر دستخط ہیں، جس سے زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوگا، یہ دونوں عمل ایسے حالات میں سامنے آئے ہیں، جبکہ ملکی معیشت شدید مالیاتی بحران کی زد میں تھی، اگرچہ آئی ایم ایف اور چین کے بینکوں کی جانب سے نئے قرضوں کا حصول شدید معاشی حبس میں خوشگوار جھونکے کی مانند ہے،  تاہم حقیقت یہ ہے کہ نئے قرضوں کے حصول سے پرانے قرض اتارنا محض دائرے کا ایک سفر ہے، جو اب سمٹتا چلا جا رہا ہے، کیونکہ قرضوں کے بھاری بوجھ تلے ملک کی معاشی سکت بھی محدود ہوتی جا رہی ہے، یہ حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ معیشت میں سدھار کے لیے سخت مگر نا گزیر فیصلے کیے جائیں۔ ماضی  میں نامعلوم وجوہات کی بناء پر معیشت کو دستاویزی بنانے سے گریز کیاگیااور اس بھاری پتھر کو چوم کر چھوڑ دیا، اب چاروناچار یہ پتھر اٹھانا ہی پڑے گا، گزشتہ ادوار میں کوئی ایسی مربوط و منظم اور دیرپا اقتصادی پالیسی سامنے نہیں آسکی، جس سے ملک کی معیشت مضبوط ہوتی اور غیر ملکی قرضوں سے نجات کے آثار پیدا ہو سکتے، یہ سب کچھ پائیدار اور مستحکم اقتصادی پالیسی کے نتیجے میں ممکن ہوسکتا ہے۔ دوسری طرف سٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر اس وقت 14.57 ارب ڈالر ہیں، جو ملکی وسائل اور یہاں موجود معاشی پوٹینشل کے پیش نظر  ناکافی ہیں۔ اب حکومت نے سکوک بانڈز جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے، ممکن ہے ان بانڈز سے کچھ وقتی ریلیف مل جائے، ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے واضح امکانات اور آئی ایم ایف  پیکیجکے بعد ڈالر کی قدر میں کمی کاسلسلہ جاری ہے اور سٹاک مارکیٹ کے حصص نے بھی بہتری کی جانب سفر کیا ہے۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ چینی بینکوں اور آئی ایم ایف کی طرف سے ملنے والی قسط سے موجودہ معاشی بحران کی شدت میں کمی آرہی ہے  ضرورت اس امر کی ہے کہ سنگاپور، دبئی، جنوبی کوریا، بنگلہ دیش، چین اور دیگر ایسے ممالک کی مثالوں سے سبق سیکھا جائے جنہوں نے ایک واضح منزل اور ہدف کا تعین کیا اور پھر اپنے وسائل اس منزل کے حصول میں لگا دئیے، زرعی ملک ہونے کے باعث پاکستان میں دنیا کی فوڈ باسکٹ بننے کی صلاحیت موجود ہے، پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات کی دنیا بھر میں مانگ ہے اور حکومتی سرپرستی سے ملکی معیشت میں آئی ٹی سیکٹر کا حصہ بھی استوار کیا جا سکتا ہے، سیاحت کا شعبہ بھی موجود ہے، ضرورت ہے  تو صرف واضح معاشی سمت کے تعین کی اور دیرپا پالیسیوں کے تسلسل کی، جس کی جانب فوری توجہ ضروری ہے۔ملک میں انفراسٹرکچراور ذرائع آمد ورفت کو ترقی دے کر دور دراز واقع ایسے علاقوں تک سیاحوں کو رسائی دینے کی ضرورت ہے جہاں پر قدرتی مناظر اور دلکش فطری ماحول نہ صرف بیرون ملک بلکہ اندرون ملک سیاحوں کی نظروں سے بھی پوشیدہ ہیں۔سیاحت آج کل ایک بہت ہی منافع بخش شعبہ ہے اور کئی ترقی یافتہ ممالک کی معیشتوں کا انحصار بھی سیاحت پر ہی ہے۔