1980کی دہائی میں جب لوڈشیڈنگ شروع ہوئی تو یہ لفظ عوام کے لئے نیا تھا، بتایا گیا کہ گلیشئیر پگھلنے اور بارشوں میں تاخیر سے دریاؤں میں پانی نہیں آیا اس لئے تربیلا ڈیم میں پانی کم ہو گیا، جس سے بجلی کی پیداوار کم ہو گئی، اس کی کمی کی وجہ سے روزانہ ایک سے دو گھنٹے بجلی بند کرنا مجبوری ہے، یہ بات لوگوں کو سمجھ آ جاتی تھی، پھر 1993 کے بعدجب لوڈشیڈنگ شروع ہوئی تو بتایا گیا کی فرنس آئل کی درآمد کم ہے، اس لیے بجلی کی پیداوار کم ہے، یہ نیا انکشاف تھا کہ بجلی اب تیل سے بھی پیدا ہوتی ہے، اس وقت کی حکومت نے بجلی پیدا کرنے کے نئے کارخانے لگوائے، جن کی وجہ سے بجلی مہنگی ہوتی چلی گئی۔ اس کے بعد تو ہر نئے دور اور نئی حکومت میں بجلی کی پیداوار کم سے کم تر اور قیمت بڑھتی گئی، لوڈشیڈنگ کی جگہ بجلی کی مکمل بندش کی نوبت آ گئی، اس بحران خاتمہ کرنے کیلئے ہر دور میں اقدامات کئے جاتے رہے ہیں تاہم اس مسئلے کا پائیدار حل کسی نے نہیں نکالا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ توانائی کے بحران کے خاتمے کیلئے ٹھوس منصوبہ بندی کی جائے۔ پانی سے بجلی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ نئے ذرائع سے استفادہ کیا جائے جس میں ہوا اور سورج کی روشنی سے بجلی پیدا کرنا قابل ذکر ہے۔دنیا میں کئی ممالک نے توانائی کے بحران سے نکلنے کیلئے جدید ذرائع سے بجلی پیدا کرنے پر توجہ مرکوز کی ہوئی ہے اور وہاں پر غیر روایتی طریقوں سے بجلی کی پیداوار روایتی طریقوں سے پیدا کی گئی بجلی سے زیادہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار توانائی کے دستیاب ذرائع پر ہے۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں بجلی پیدا کرنے کے ذرائع بے پناہ موجود ہیں تاہم ان سے استفادہ کرنے میں ہم سستی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ سورج کی روشنی سے بجلی پیدا کرنے میں پاکستان کو ان ممالک میں سے ایک گنا جاتا ہے جہاں سال کے زیادہ تر مہینے سورج آب و تاب سے چمکتا ہے اور اس سے اگر بجلی پیدا کی جائے تو کسی اور ذریعے سے بجلی پیدا کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گا۔
اس طرح بلوچستان اور سندھ میں ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے امکانات روشن ہیں جہاں ساحلوں سے آنے والی ہواؤں کی مدد سے بجلی پیدا کی جاسکتی ہے اور توانائی بحران کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔یوں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس وقت کئی بحرانوں کاوطن عزیز کو سامنا ہے جس میں موسمیاتی تبدیلی کے زیر اثر بارشوں اور سیلابوں نے تباہی مچا دی ہے اور اس وقت پورے ملک میں ہنگامی صورتحال ہے۔اس کے بعد عین ممکن ہے کہ غذائی قلت کا مسئلہ پیدا ہو اکیونکہ بڑے پیمانے پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئی ہیں۔ آنے والے دنوں میں غذائی قلت کا مقابلہ کرنے کیلئے حکومت کو اب سے منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔دوسری طرف ابھی سردی شروع نہیں ہوئی مگر گیس کی لوڈ شیڈنگ شروع ہوگئی ہے، جبکہ گیس کا اصل بحران ابھی باقی ہے۔
ضروری ہے کہ سیاسی قیادت اس وقت باہمی اختلافات بھلا کر ملک کو درپیش بحرانوں کا مقابلہ کرنے کیلئے متحد ہو۔حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ملک کو سیلاب کی صورت میں جس بحران کا سامنا ہے اس کی مثال نہیں ملتی اور اب کے بار2010سے بھی زیادہ نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ ملک کے کئی حصوں میں اب بھی بارشیں ہو رہی ہیں اور موسمیات کے محکمے کے مطابق ہوا کاایک اور کم دباؤ یعنی بارش برسانے والے بادل ملک میں داخل ہوں گے جو کئی دن تک بارش برسائیں گے یعنی آزمائش ابھی جاری ہے اور سب نے مل کر اس مرحلے پر سیلا ب متاثرین کی تکالیف کو کم کرنے میں ہاتھ بٹانا ہے۔