وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمان نے متواتر بارشوں اور سیلابی صورتحال کو غیر معمولی انسانی المیہ قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ اس صورتحال کا مقابلہ کرنا کسی ایک صوبے یا ملک کے بس کی بات نہیں، اس کے لئے اقوام متحدہ سے مدد طلب کی جائے گی، نیز امداد کے لئے عالمی اپیل بھی کی جائے گی، وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی کے مطابق ان سیلابوں سے پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں آٹھ کروڑ افراد متاثر ہوئے اور ان سیلابوں کی شدت 2010 کے میگا فلڈ سے بھی زیادہ ہے، کیونکہ اس وقت سیلاب کا پانی دریاؤں کے اندر تھا جس سے دریاؤں کا قریبی علاقہ ہی متاثر ہوا تھا، مگر شدید بارشوں اور ان کے نتیجے میں حالیہ سیلاب کے اثرات وسیع تر نوعیت کے ہیں، جن سے جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان کا بڑا حصہ شدید متاثر ہوا ہے۔ وسط جون سے اب تک مسلسل بارشوں کی وجہ سے آبی ذخائر مکمل بھر چکے ہیں، دریاؤں میں بھی پانی کی سطح بلند ہے، مگر بارشوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور یہ ستمبر تک جاری رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
جس سے سیلاب زدگان کی مشکلات میں اضافے کا اندیشہ ہے۔یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس مرتبہ مون سون پہلے کے مقابلے میں طویل اور زیادہ بارشوں کی صورت میں موسمیاتی تبدیلی کے زیر اثرنظر آیا ہے جس کے لئے اب مستقبل میں بھی تیار رہنا ہوگا کیونکہ اب اس طرح کے حالات کے سامنا ہر سال ہوسکتا ہے۔جہاں تک موجودہ بحران کا تعلق ہے تو اس وقت ملک کے رفاعی ادارے ان حالات میں متاثرین کے لئے امداد پہنچا رہے ہیں اور ماضی کی طرح اس وقت بھی پوری قوم اس آزمائش کی گھڑی میں متاثرین کے ساتھ شانہ بشانہ شریک ہے۔ تاہم جس پیمانے پر تباہی ہوئی ہے اس کیلئے وسیع پیمانے پر امدادی کاموں اور سرمائے کی ضرورت ہے، اس ہنگامی صورت حال میں عوام،خاص طور پر سمندر پار پاکستانیوں سے امداد کی اپیل مددگار ثابت ہو سکتی ہے، جس میں تاخیر کی گنجائش نہیں اور اس کام کو تیزی سے سر انجام دینے کی ضرورت ہے۔
وفاقی وزیر ماحولیاتی تبدیلی نے حالیہ صورتحال کو 2010 کے بڑے سیلاب سے شدید قرار دے کر حالات کی صحیح عکاسی کی ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ حکومت 2010 کی حکومت کے مقابلے میں زیادہ تیزی اور مستعدی سے بحالی اور امداد کی کاروائیوں کو انجام تک پہنچائے تاہم ایسے حالات میں ذمہ داری صرف حکومت پر عائد کر دینا کافی نہیں، اصولی طور پر اس موقع پر قومی یکجہتی کی ضرورت ہوتی ہے اور سیاسی اختلافات بھلا کر قومی اور انسانی ہمدردی کے جذبے کے ساتھ کام کرنا ہوتا ہے۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جب بھی قوم پر مشکل وقت آیا ہے، عوام نے قومی جذبے سے اس کا مقابلہ کیا ہے اور ایک دوسرے سے بڑھ کر مشکل کی گھڑی میں متاثرین کی مدد کی ہے۔ یہ پاکستانی قوم کا خاصہ ہے کہ یہ آزمائش کی گھڑی میں زیادہ مضبوط اور منظم ہو کر سامنے آتی ہے۔