مسلمانوں کے خلاف مودی کی فسطائیت 

بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی کے ترجمانوں کے گستاخانہ بیانات سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل چھلنی ہیں،  اور ان گستاخوں کے خلاف انضباطی کاروائی میں تاخیر کے خلاف جمعہ کے روز بھارت میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں شامل مسلمانوں کے خلاف مودی حکومت کی فسطائیت کھل کر سامنے آ گئی ہے، گزشتہ روز اتر پردیش کے شہر فیروزآباد، علی گڑھ، مرادآباد، سہارنپور، الہ آباد اور ریاست جھارکھنڈ کے دارالحکومت رانچی سمیت مسلم اکثریتی علاقوں میں احتجاج کرنے والوں کے خلاف بھارتی ریاستی طاقت کا ظالمانہ استعمال کیا گیا، نہ صرف لوگوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے، بلکہ سہارنپور اور کانپور کے علاقوں میں مسلم آبادی کی املاک کو سرکاری سرپرستی میں بلڈوزر سے منہدم بھی کیا جا رہا ہے، جن کی فوٹیج میڈیا پر آ چکی ہے، ان مظاہروں میں بھارتی پولیس کی فائرنگ سے اب تک دو نوجوان شہید ہوچکے ہیں، جبکہ مغربی بنگال کی ریاست میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے، یہ واقعات بھارتی مسلمانوں کے خلاف حکومتی سرپرستی میں اُبھرتے ہوئے خطرے کی نشاندہی کرتے ہیں، بھارتی سیکورٹی اداروں کی نگرانی میں مسلم آبادی کی نسل کشی کے واقعات بھارت میں ایک بار پھر سر اٹھا رہے ہیں۔ مودی حکومت کے آٹھ بھیانک سالوں میں مسلم آبادی کے خلاف انتہا پسندانہ واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، اس دوران انسانی حقوق کی پامالی کے واقعات اگرچہ مسلم آبادی  تک محدود نہیں، بلکہ مسیحی، یہاں تک کہ دلت ہندوں کو بھی ہندو قوم پرستوں کی جانب سے نشانہ بنانے کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، تاہم انتہا پسند ہندوں کے مظالم اور حکومتی سرپرستی میں انسانی اور شہری حقوق کی پامالی کا سب سے بڑا ہدف مسلمان ہیں، بھارتی حکمران جماعت کے انتہا پسند حامیوں کی جانب سے جانی و مالی نقصان کے علاوہ بھارت کی مسلم آبادی کو عبادت کے حق سے بھی محروم کیا جا رہا ہے، کسی قدیم مندر کی موجودگی کے ڈھکوسلے پر پرانی اور تاریخی مساجد کے خلاف منظم مہم جاری ہے اور بھارتی حکمران جماعت کی مسلم مخالفت اس مہم کا بنیادی محرک ہے، یہ صورتحال ساری دنیا کے سامنے ہے اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اور عالمی طاقتوں کی حکومتیں یہ پامالی بچشم خود دیکھ رہی ہیں،کہ کس طرح بھارتی حکومت نے ایسے قوانین اور پالیسیاں وضع کی ہیں، جن کا بنیادی مقصد مسلم آبادی کو منظم انداز سے الگ تھلگ کرنا، تشدد کا نشانہ بنانا، اور پیچھے دھکیلنا ہے۔ نسل کشی اور بڑے پیمانے پر قتل عام کے خطرات کے عالمی ماہر گریگوری سٹیشن، جو نسل کشی کے دس مراحل کے نظریے کی وجہ سے عالمی سطح پر جانے جاتے ہیں، رواں برس جنوری میں متنبہ کر چکے ہیں،کہ بھارتی مسلمان نسل کشی کے آٹھویں مرحلے میں ہیں، ان کے بقول اس مرحلے میں بھارتی مسلم آبادی کا صفایا صرف ایک قدم کی دوری پر رہ جاتا ہے، حالیہ واقعات جو بھارتی حکمران جماعت کے دو ترجمانوں کی جانب سے تضحیک آمیز بیانات کا ردعمل ہے، مسلم نسل کشی کے اندیشوں کو تقویت دیتے ہیں، گستاخانہ بیانات پر بی جے پی کے ترجمانوں کو گرفتار نہ کیا جانا اس امر کی دلیل ہے کہ یہ مذموم بیانات ان گستاخوں کا انفرادی فعل نہیں تھا، بلکہ یہ بھارتی حکمران جماعت کی پالیسی کا حصہ تھا، جس کا مقصد مسلمانوں کو اشتعال دلانا اور پھر آر ایس ایس کے غنڈوں اور ریاستی طاقت کے بے رحمانہ استعمال سے مسلم آبادی کو نشانہ بنانا تھا۔ گستاخانہ بیانات پر مسلم ممالک خاص طور پر خلیجی ممالک کی جانب سے فوری ردعمل سامنے آنے سے بھارتی حکومت پر کسی قدر اثر ہوا، مگر اس کے مجرموں کے خلاف کسی قانونی کاروائی کا نہ ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ فسطائی اور مسلم کش مودی حکومت مسلمانوں کے جذبات کو کوئی اہمیت نہیں دیتی‘ مغربی ممالک کو بھی کاروباری مفادات سے باہر نکل کر انسانی حقوق اور انصاف کی بنیاد پر موقف اختیار کرنا چاہئے۔