آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی جانب سے پاکستان کے ساتھ 25 توسیع شدہ ایکسٹنڈڈفنڈ فیسلیٹی(ای ایف ایف) کی بحالی کو معاشی بحران کی صورتحال میں ایک بڑی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے، اس طرح آئی ایم ایف سے ایک ارب 70 کروڑ ڈالر کی قسط ملنے کی راہ ہموار ہوئی ہے‘ اس معاہدے کی اہمیت یوں اہم ہے کہ ایسے حالات میں کیا گیا جب ملکی معیشت شدید ترین دشواریوں سے دوچار تھی، حکومت کا موقف ہے کہ اس معاہدے کے ذریعے اس نے ملک کو سری لنکا جیسے حالات کا شکار ہونے سے بچایا ہے، یہ بہت بڑی بات ہے، معیشت کے دیوالیہ پن کے خدشات کا چھٹ جانا بلاشبہ قابل ذکر پیش رفت ہے، مگر قرض کی رقم سے آخر کہاں تک، اگر بیرونی قرضے پہلے سے لیے گئے قرضوں کی ادائیگی کا واحد ذریعہ ہیں تو معیشت کے لئے یہ ہرگز اچھی خبر نہیں ہے، یہ مختصر مدت کی سہولت تو ہو سکتی ہے مگر اس سے لاحق خطرات کا مستقل ازالہ ممکن نظر نہیں آتا۔ قومی معیشت کا استحکام پیداواری صلاحیت میں اضافے سے ہی ممکن ہے، مگر سردست ہماری پیداواری کارکردگی گنجائش سے نمایاں حد تک کم ہے، ملکی برآمدات کو ہی دیکھ لیں، گذشتہ دس برس کے دوران برآمدات میں بمشکل ایک ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے‘11-2010 میں برآمدات 24 ارب 31 کروڑ ڈالر تھیں‘ 21-2020 میں 25 ارب 30 کروڑ ڈالر ہیں‘ اس دوران اگرچہ کئی سال بھی آئے مگر برآمدات 21 ارب ڈالر تک رہی، تاہم درآمدات میں اس دوران تقریبا 16 ارب ڈالر کا اضافہ ہوگیا، ہم زرعی معیشت کا دعوی کرتے ہیں مگر بیشتر زرعی اجناس بھی درآمد کئے بغیر چارہ نہیں، اس پیداواری کارکردگی کے ساتھ ملکی معیشت کو پائیدار استحکام کی منزل تک لے کر جانا ممکن نہیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ پیداوار میں اضافہ کیا جائے تاکہ زرمبادلہ ملک سے باہر جانے کے بجائے باہر سے آئے، لوگوں کو روزگار کے مواقع ملیں، قرضوں کے ساتھ،چاہے ان کی شرائط کتنی ہی نرم کیوں نہ ہو، کسی معیشت کو مستحکم کرنا مشکل ہے، قرض وقتی سہارا ہو سکتے ہیں، مگر پائیدار استحکام ہرگز نہیں، چنانچہ حکومت کو اس جانب خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ملک سے دیوالیہ پن کے جن خطرات کے ٹل جانے کی امید کی جارہی ہے، وہ مستقل طور پر ٹل جائیں۔ اس کے لیے حکومت کو غیر پیداواری اخراجات کی مد میں خاطرخواہ کمی کرنا ہوگی اگر حکومت اپنے غیر ضروری اخراجات کم کرے تو متعدد مدات میں اربوں روپے کی بچت ممکن ہے، ان حالات میں جب ہمارے ملکی اور غیر ملکی قرضے انتہائی حدوں کو چھو رہے ہیں ایسا کرنا ناگزیر ہو چکا ہے، سرکاری اخراجات میں کفایت شعاری اختیار کرتے ہوئے حکومت کو سیلاب متاثرین کی بحالی کے لئے زیادہ وسائل مختص کرنے چاہئے۔ اس میں شبہ نہیں کہ سیلاب سے متاثرہ صوبوں کے حالات تباہ کن ہیں اور بڑے پیمانے کی اس تباہی کے باوجود صوبوں کے لیے سرپلس بجٹ کی شرط پوری کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو گیا ہے، قرض کی شرائط میں نرمی عالمی طریقہ کار سے متصادم نہیں، اس سلسلے میں ہمارے پاس کورونا وبا کی نظیر موجود ہے کہ متاثرہ ممالک کو قرض کی واپسی میں رعایت دی گئی، چنانچہ درپیش حالات کے پیش نظر عالمی مالیاتی فنڈ سے رعایت کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔