موسمیاتی تبدیلی کوئی اچانک حادثہ نہیں بلکہ یہ ایک مسلسل عمل ہے جس سے پوری دنیا دوچار ہے۔2010 کے شدید سیلاب کے فوری بعداس وقت کی حکومت نے مغربی دارالحکومتوں سے معلومات حاصل کرنا شروع کیں جو اپنی سائنس کی بنیاد پر ان پیشگوئیوں سے متعلق آگاہ کر رہے تھے جس میں بہت جلد پاکستان میں ماضی سے زیادہ تباہ کن سیلابی صورتحال کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا گیا تھا۔یہ پیشگوئیاں سائنسی اعداد و شمار پر مبنی تھیں کیونکہ پاکستانی علاقہ دو موسمی نظاموں کے سنگم پر واقع ہے۔تازہ ترین سیلاب کے بارے میں بھی سائنسی برادری متفق ہے کہ پاکستان دنیا کے ایک ایسے مقام پر واقع ہے جہاں دو بڑے موسمی نظاموں کے اثرات برداشت کرنا پڑ رہے ہیں۔ ایک نظام زیادہ درجہ حرارت اور خشک سالی جیسے مارچ میں گرمی کی لہر کا سبب بن سکتا ہے اور دوسرا مون سون کی بارشیں لے کر آتا ہے۔
2010میں ہم مختلف ذرائع سے سن رہے تھے کہ بنیادی طور پر موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان میں زیادہ تباہ کن سیلاب آنے کا خدشہ ہے۔ مگر ہم نے موقع بھی گنوا دیا اور خطرے کو بھی نظر انداز کر دیا۔ دس سال کے درمیانی عرصے میں ہم نے اس چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے لیے کچھ نہیں کیا جس کی جانب عالمی برادری نے ہماری توجہ مبذول کروائی تھی۔ کچھ حلقوں میں یہ احساس غلط نہیں کہ موسمیاتی تبدیلی اور اس سے پیدا ہونے والے ماحولیاتی مسائل پاکستان کے لیے مستقبل میں بڑا خطرہ بن جائیں گے۔شاید کہ ہمارے پاس اب بھی وقت ہو کہ ہم اپنی ترجیحات پر ازسر نو غور کریں اور موسمیاتی تبدیلی کو ایک بنیادی خطرہ قرار دے دیں۔ ڈیموں کی تعمیر، آبی گزرگاہوں اور آبی ذخائر کی صفائی اور دیگر تمام متعلقہ کوششوں کے لئے تمام وسائل کو بروئے کار لایا جانا چاہئے اور اب اس میں کسی تاخیر کی گنجائش نہیں رہی۔ خیبرپختونخوا، سندھ، پنجاب اور بلوچستان میں مون سون کی شدید بارشوں کے باعث جولائی 2010 کے آخر میں سیلاب آیا تھا جس نے دریائے سندھ کے طاس کو متاثر کیا۔ پاکستان کے کل رقبے کا تقریباً پانچواں حصہ سیلاب سے متاثر ہوا جس میں صوبہ خیبر پختونخوا کو بھاری جانی و مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔اس سیلاب کے باعث ملک بھر میں 1985 اموات ہوئیں۔ حکومت پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق سیلاب سے
زیادہ تر املاک، روزگار اور بنیادی ڈھانچے کی تباہی سے تقریبا دو کروڑ افراد براہ راست متاثر ہوئے تھے۔حالیہ سیلاب نے 2010 میں آنے والے سیلاب سے زیادہ تباہی مچائی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تین کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو بے گھر ہو چکے ہیں جبکہ متاثرہ علاقوں میں پانی سے جنم لینے والی بیماریوں کے پھیلا اور صحت کے دیگر چیلنجز کا سامنا ہے۔وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان نے ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے پاکستان کو عالمی حدت کا گرانڈ زیرو قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان جیسے ممالک کو زد میں لینے والی موسمیاتی تباہ کاریوں کی تیز رفتار اور ہولناک نوعیت کے پیش نظر مضر صحت گیسوں کے عالمی اخراج کے اہداف اور تلافی پر ازسر نو غور کیا جانا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ عالمی حدت دنیا کے وجود کو درپیش ایک بحران ہے اور پاکستان کو گرانڈ زیرو کی حالت درپیش ہے۔