عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے جنم لینے والی آفات سے بچنے کے لئے ملک کو طویل مدتی اور جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، اس ضمن میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بڑے ڈیموں کی تعمیر اور نکاسی آب کا نظام بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے، وطن عزیز میں آبی ذخائر کی تعمیر اور آبی گزرگاہوں اور نکاسی آب کے نظام کی خستہ حالی آبی آفات کی شدت اور تباہ کاریاں بڑھانے کا سبب بن رہی ہے، اگرچہ مقامی ریکارڈ کے مطابق اس سال مون سون کی بارشیں معمول سے زیادہ تھیں، مگر مون سون سسٹم سے دیگر علاقوں میں بھی اوسط سے زیادہ بارش ہوئی، تاہم جس درجے کے تباہ کن سیلاب ہمارے ملک میں آئے ہیں، خطے کے کسی دوسرے ملک میں اس کی مثال نہیں ملتی، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دیگر ممالک میں بارشوں کے پانی کو سنبھالنے کیلئے انتظامات ہمارے مقابلے میں بہتر ہیں۔ چھوٹے، درمیانے اور بڑے ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے ہماری حکومتوں کی سست روی محتاج بیان نہیں ہے، ملک کے قیام کو پون صدی ہوگئی مگر آج بھی ہمارا انحصار صرف دو بڑے آبی ذخیروں پر ہے۔ جنوبی ایشیا کے تین بڑے دریائی نظام میں دریائے سندھ سب سے بڑا ہے، مگر اس دریا پر ڈیم اور بیراج کی تعداد دیگر دونوں دریاؤں سے کم ہے۔ دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں پر ڈیم اور بیراج کی تعداد صرف 9 ہے.
ان میں سے سب سے آخر میں مکمل ہونے والا منصوبہ غازی بروتھا بیس برس پہلے مکمل ہوا تھا، جبکہ انڈس ریور سسٹم کے دو بڑے ڈیم جو ملک کے سب سے بڑے ڈیم ہیں، 1967 اور 1976 میں مکمل ہوئے تھے، قریب نصف صدی کے دوران ملک میں کسی بڑے ڈیم کی تعمیر کا نہ ہونا آبی مینجمنٹ میں ایسی بڑی کوتاہی ہے جس کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا، صرف بڑے ڈیموں کی بات نہیں، درمیانے اور چھوٹے ڈیموں کے معاملے میں بھی یہی رجحان رہا ہے، آبی ذخیرے کی گنجائش کے اعتبار سے ہمارا شمار بہت پسماندہ ممالک میں ہوتا ہے پانی ذخیرہ کرنے کی محدود صلاحیت کا نتیجہ صرف سیلابی تباہ کاریوں کی صورت میں ہی برآمد نہیں ہوتا، اس نقصان کو فی کس دستیاب پانی کی کمی اور زرعی شعبے، جس کو ہم فخریہ طور پر معیشت کی ریڑھ کی ہڈی قرار دیتے ہیں، کے لیے پانی کی کم مقدار کی دستیابی کی صورت میں بھی سامنے آنے والے نقصانات کے تناظر میں بھی دیکھنا چاہیے، اس سال ملک کے جن حصوں کو مون سون سیزن میں مسلسل اور ریکارڈ بارشوں کا سامنا رہا، انہی علاقوں میں کچھ سال پہلے تک خشک سالی کی شدت تھی اگر ان علاقوں میں ڈیموں کا وسیع سلسلہ ہوتا جیسا کہ دیگر ممالک میں ملتا ہے، تو یقینا یہ پانی سیلاب کی صورت میں آبادیوں کے لیے تباہی نہ لاتا اور ضائع ہو جانے کے بجائے ضرورت کے وقت پینے اور فصلوں کو سیراب کرنے کیلئے دستیاب ہوتا.
ملک کے ان جنوبی حصوں کیلئے پورے وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی، مگر نم کیسے پیدا ہو، جب حکومتوں کی ترجیحات میں آبی وسائل شامل ہی نہ ہوں، حکمران آبی ذخائر کے منصوبوں کے دعوے تو بڑے شدومد سے کرتے ہیں، اکثر منصوبوں کے سنگ بنیاد کی تقاریب بھی ایک سے زائد بار ہوئی ہیں، مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ ان دکھاووں سے نکل کر حقیقت کا سامنا کیا جائے، ملک کو مزید ڈیموں کی ضرورت کے دلائل صرف سیلاب سے تحفظ کے انتظامات تک محدود نہیں، پانی کی قلت جو آنیوالے وقتوں میں ملک کو شدید آبی قلت والے ممالک میں شامل کرنے جارہی ہے، یہ بھی آبی ذخائر میں اضافہ کی متقاضی ہے۔ پاکستان میں پانی کی طلب اور رسد کا فرق جو 2004 میں گیارہ فیصد تھا، 2025 تک 35 فیصد تک پہنچ جائے گا، 1950 میں ملک میں فی کس پانچ ہزار مکعب میٹر پانی دستیاب تھا، مگر 1990 کی دہائی میں یہ دو دو ہزار سے بھی نیچے آگیا، جبکہ اس وقت ہم تقریبا اس سطح پر آگئے ہیں جسے شدید آبی بحران قرار دیا جا سکتا ہے۔