وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز بلوچستان کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے سیلاب متاثرین کے اگست-ستمبر کے بجلی کے بل معاف کرنے کا اعلان کیا ہے، جب کہ وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر نے بجلی کی قیمتوں میں کمی کیلئے عملی اقدامات کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ عوام مہنگے ایندھن پر پیدا ہونے والی بجلی برداشت نہیں کرسکتے، اس لئے صرف ملکی وسائل سے ہی چلنے والے پاور پلانٹس لگائے جائیں گے، حکومت کا یہ اعلان خوش آئند ہے، کچھ شک نہیں کہ ملک میں مقامی وسائل سے بجلی پیدا کرنے کی بھرپور استعداد موجود ہے اور ملکی ضرورت کی تمام بجلی قابل تجدید ذرائع سے پیدا کی جاسکتی ہے،داخلی وسائل پر چلنے والے پاور پلانٹ کی حکومتی پالیسی پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ دیر آئد درست آئد، قابل تجدید ذرائع سے نہ صرف بجلی سستی حاصل کی جاسکتی ہے بلکہ اس سے بجلی بحران پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے، نیز مہنگے ایندھن سے بھی چھٹکارا مل جائے گا اور درآمدی بل میں بھی کمی آئے گی۔
یقینا ملک کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے نئے منصوبے از حد ضروری ہیں، مگر اس سے پہلے کرنے والے کام بجلی کے ترسیل کے نظام کی خامیوں کو دور کرنا ہے۔ جنوری 2018 میں پبلک اکانٹس کمیٹی کو سیکرٹری پاور ڈویژن کی جانب سے بتایا گیا کہ ناقص ترسیلی نظام کے سبب قومی خزانے کو 213 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہو رہا ہے، گزشتہ سال اکتوبر میں سابق حکومت نے بجلی کے ترسیل کے نظام کو اپ ڈیٹ کرنے کے لئے اور اس کی استعداد بڑھانے کے لیے بتدریج 111 ارب روپے کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا، جس کے تحت تین سالوں میں ترسیلی نظام کی استعداد میں دس ہزار میگاواٹ سے زائد کا اضافہ کرنا تھا، مگر یہ منصوبہ ابھی تک عملی شکل اختیار نہیں کر سکا۔
گزشتہ سال بجلی کی اضافی پیداوار کے باوجود عوام کو اس لئے لوڈ شیڈنگ برداشت کرنا پڑی تھی کہ بجلی کا ترسیلی نظام اتنی استعداد نہیں رکھتا تھا، لہٰذا نئے پیداواری منصوبوں کے ساتھ ساتھ دیگر عوامل کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے، ورلڈ بینک اور دوسرے عالمی ادارے بھی بجلی کے ناقص نظام کی نشاندہی کرتے ہوئے اسے درست کرنے کی ہدایت دے چکے ہیں، مگر سابقہ ادوار میں بھی اس بھاری پتھر کو اٹھانے سے گریز کیا گیا، اس سلسلے میں ورلڈ بینک نے ساڑھے 19 کروڑ ڈالر کے قرض کی منظوری بھی دے دی تھی، جس کو بجلی کے نظام کو بہتر بنانے پر خرچ کیا جاتا، شنید ہے کہ اس بار بھی ورلڈ بینک کی شرط کے طور پر اس کام کا بیڑا اٹھایا گیا ہے۔
حکومت کو ایک دیرپا مستقل انرجی پالیسی کی ضرورت ہے، ملک کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے نئے منصوبوں کا قیام ترسیلی نظام کی اپ گریڈیشن جس میں شامل ہو اور یہ کام جلد از جلد کیا جانا چاہئے۔کیونکہ بجلی کی پیداوار میں اضافے کا کیا فائدہ جب اس کے باوجود بھی لوڈ شیڈنگ جاری رہے۔ بجلی کی فراوانی کی صورت میں اگر ترسیلی نظام کی اپ گریڈیشن نہیں ہوتی تو عوام کی مشکلات میں کمی آنے کی بجائے اضافہ ہوتا جائیگا۔اس لئے اگر حکومت نے اس طرف اب توجہ کی ہے تو یہ ایک بہت اہم قدم ہے۔