بابر اعظم ٹی ٹونٹی انٹرنیشنل میں دوسری سنچری بنانے والے پہلے پاکستانی بلے باز بنے اور یہ ٹی ٹونٹی کرکٹ میں پاکستان کی طرف سے بہترین اوپننگ پارٹنرشپ کا بھی ریکارڈ تھا‘ اس ریکارڈ نے197 رنز کی اوپننگ پارٹنرشپ کا وہ ریکارڈ توڑ ڈالا جو ان ہی اوپنرز نے کچھ عرصہ پہلے اپنا ہی قائم کردہ ایک اور ریکارڈ توڑ کر بنایا تھا‘گذشتہ چند ہفتے بابر اعظم کیلئے بہت تکلیف دہ رہے ہیں۔ اگرچہ ان کی ٹیم ایشیا کپ میں عمدہ کھیل رہی تھی اور جیت بھی رہی تھی مگر خود بابر اعظم کریز پر گم صم سے نظر آتے تھے۔ انڈیا کیخلاف پہلے میچ میں محض دس رنز بنا کر وہ بھونیشور کمار کی شارٹ پچ کے جال میں پھنس گئے۔ہانگ کانگ کے خلاف بھی صرف نو ہی رن بنا پائے تھے کہ احسان خان کے دام میں آ گئے، انڈیا کیخلاف دوسرے میچ میں روی بشنوئی کی سپن نے انہیں الجھا ڈالا جب ٹیم کے سب سے معتبر بلے باز کی فارم ایسے انحطاط کا شکار ہو تو باقی ماندہ بیٹنگ لائن بھی دباؤمیں آ جایا کرتی ہے مگر محمد رضوان جیسے آزمودہ کار بلے باز کی موجودگی اس خلاء کو پر کرنے کی سعی کرتی رہی اور انڈیا کو ہرا کر پاکستان فائنل تک بھی پہنچ گیا‘یہ عمومی شعور کیلئے قابلِ فہم بات ہے کہ جیسے ہر انسان کی کارکردگی کے کچھ اچھے اور کچھ برے دن ہوتے ہیں، ایتھلیٹس کا معاملہ بھی عام انسانوں سا ہی ہوتا ہے مگر یہاں ایشیا کپ کے دوران ہی ہر طرف سے شور اٹھنے لگا کہ پاکستان کو یہ اوپننگ جوڑی توڑ دینی چاہیے، سٹرائیک ریٹ بہت کم ہے، یہ عالمی معیار کے مطابق نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔اور جب پاکستان ایشیا کپ کے آخری دو میچز ہارا تو تبصروں، تجزیوں اور مشوروں کا ایک انبار سا سج گیا‘ کوئی بولا احمد شہزاد کو موقع دینا چاہیے، کچھ کے خیال میں بابر اعظم کو ہٹا کر سرفراز احمد کو قیادت میں واپس لانا نشاۃِ ثانیہ کی دلیل تھی، کسی نے یہ کہا کہ شعیب ملک کو ٹیم میں شامل کرنا ضروری ہے‘ وہ مشکل وقت میں ٹیم کو مشکل سے نکال سکتے ہیں‘انگلینڈ کیخلاف سیریز سے پہلے پریس کانفرنس میں بھی میڈیا نے بابر اعظم کے سامنے خوب طبع آزمائی کی مگر انہوں نے سٹرائیک ریٹ کی ساری بحث کو سیدھے بلے سے خاموش کروا دیایہاں رضوان اور بابر اعظم کے پاس ان سبھی سوالوں کا جواب دینے کا موقع تھا اور قسمت نے بھی یاوری کی کہ معین علی ٹاس جیت کر غلط فیصلہ کر بیٹھے‘ اگرچہ عموماً بابر اعظم اور محمد رضوان نپی تلی سی دلکش کرکٹ کھیلتے نظر آتے ہیں مگر اس اوپننگ پارٹنرشپ میں یہ دونوں خاصے برہم سے نظر آئے۔ اپنی روایتی سمارٹ کرکٹ کے علاوہ انہوں نے مار دھاڑ کا بھی خوب مظاہرہ کیا۔اہم بات یہ تھی کہ اس مار دھاڑ کی کسر پوری کرنے کے لئے انہوں نے اپنی بنیادی گیم کو بالکل نہیں چھیڑا۔ ہر گیند جو ہوا میں تیرتی ہوئی باؤنڈری کے پار جا گری، وہ گویا ان پریس کانفرنسز کے سوالوں کا جواب تھی۔ڈیوڈ وِلی دوڑتے ہوئے آئے، بابر اعظم اپنے خاص روایتی انداز میں قدموں کو حرکت میں لائے، ایک ٹانگ پر جھکے اور سیدھے بلے سے گیند کو آف سائیڈ پر موجود فیلڈرز کے جمگھٹے میں سے ایسی مہارت سے باؤنڈری پار رسید کیا کہ پل بھر کو گماں گزرا، گیند انگلش فیلڈرز نہیں بلکہ ان کے ناقدین کے حصار کو توڑتی ہوئی بانڈری پار پہنچی ہے‘ہر دن بہترین نہیں ہوتا۔ ہو سکتا ہے کل کلاں پھر پاکستان کوئی میچ ہارے اور ان دونوں اوپنرز کے سٹرائیک ریٹ پھر قومی بحث کو ایک نئی جہت دینے لگیں مگر ابھی کیلئے، بابر اعظم نے اس ساری تنقید کو اٹھاکرباؤنڈری پارپھینک دیا۔