اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران دوسرے روز بھی وزیراعظم شہباز شریف نے کئی غیر ملکی سربراہان مملکت، یو این جنرل اسمبلی کے صدر اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے اعلی عہدیداران سے ملاقات کی، جس میں سیلاب متاثرین کی مدد اور بحالی کی کوششوں میں عالمی برادری کے تعاون سمیت دیگر امور پر بات چیت ہوئی، جاپان نے جی 20 کے قرض موخر کرنے کے اقدام کے تحت سولہ کروڑ ڈالر قرض موخرکرنے اور حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں کے لیے 70 کروڑ ڈالر کی ہنگامی امداد دینے کا اعلان کیا ہے، اس سے دباؤ کا شکار ملکی معیشت کو بحالی کے لیے کچھ مالی گنجائش مل سکے گی، مگر اہم بات یہ ہے کہ ہم ابھی تک دنیا نے پاکستان کے مسئلے کا سنجیدگی کے ساتھ احساس نہیں کیا، یہ مسئلہ محض پاکستان کا نہیں بلکہ کل کوئی او ر ملک بھی اس کا شکار ہوسکتا ہے۔ابھی تک عالمی برداری نے ایسا کوئی بڑا قدم نہیں اٹھایا کہ جس کی بنیاد پر یہ کہا جاسکے کہ دنیا پاکستان میں برپا ہونے والے انسانی المیہ سے پوری طرح آگاہ ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، امریکہ اور ترکیہ کے صدور نے اپنے خطابات میں پاکستان کے سیلاب متاثرین کا ذکر کیا اور وزیراعظم شہباز شریف نے بھی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں مقبوضہ کشمیر کے مسئلے کو اُجاگر کرنے سمیت سیلاب متاثرین کا معاملہ اٹھا یا۔سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے عالمی سطح پر ارتعاش کے لئے ہر فورم پر بھرپور کام کی ضرورت ہے کیونکہ ایک ایسا ملک جس کا کاربن اخراج میں حصہ اپنے تناسب سے کہیں کم ہے، اگر ترقی یافتہ دنیا کی بڑی کمپنیوں کی کاروباری ہوس کے سبب ماحولیاتی تباہ کاریوں کا شکار ہے تو اب تک عالمی ضمیر کو بیدار ہونا چاہئے۔ ہم آبادی کے لحاظ سے پانچواں بڑا ملک ہونے کے باوجود معاشی میدان میں 40 ویں نمبر پر کھڑے ہیں، سات دہائیوں کے قومی سفر میں ہم نہ اپنی معیشت کو مضبوط بنا سکے، نہ ہی افرادی قوت کو پوری طرح سے بروئے کار لا سکے۔
وزیراعظم نے بجا کہا ہے کہ پاکستان عالمی برادری کے ساتھ تجارت اور معیشت کے شعبوں میں شراکت داری کا خواہاں ہے اور دیکھا جائے تو مسئلے کا حل ہی یہی ہے کہ امداد کے ساتھ ساتھ معاشی شراکت داری کے ذریعے ایسے پائیدار ڈھانچے کو تشکی دینے میں پاکستان کی مدد کی جائے جس کے ذریعے مستقبل میں ایسے واقعات کی صورت میں نقصان کے حجم کو کم سے کم رکھا جا سکے۔ حالیہ پیش رفت میں جہاں ہمیں عالمی برادری کو متاثرین کی بحالی کی طرف متوجہ کرنا چاہئے، وہیں اپنے لیے معاشی آسانیاں بھی حاصل کرنی چاہئیں تاکہ معیشت اور تجارت کو مضبوط بنایا جا سکے، اگر ہم اپنی نوجوان آبادی جو کل آبادی کا لگ بھگ دو تہائی ہے، کو ہی درست انداز میں کھپا لیں، تو ملکی معیشت میں انقلاب برپا کرسکتے ہیں، بلکہ خود کفیل ہو کر بیرونی قرضوں سے بھی نجات حاصل کر سکتے ہیں۔بیرونی دنیا کے ساتھ تجارت کے ذریعے ہم معیشت کو پائیدار بنیادوں پر استوار کرکے ملک کوترقی و خوشحالی سے ہمکنار کرسکتے ہیں۔