آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول 

مقبولیت اور شہرت کی دھوپ جب دیواروں سے اترنا شروع ہوجاتی ہے تو شام کے سائے بڑھنے لگتے ہیں وہ شام، جس کا دن کے ہنگاموں میں بہت کم شاید بہت ہی کم لوگوں کو خیال رہتا ہے‘اس لئے جب یہ شام دل آنگن میں کنڈلی مار کر بیٹھ جاتی ہے تو انسان بہت ہی اکیلا اور خالی خالی رہ جاتا ہے شاید انہی دنوں کے بارے کبھی میں نے بھی کہا تھا
 عجیب طرح سے خالی یہ دن گزرتے ہیں 
 خبر بھی کوئی نہیں یار ِ بے خبر بھی نہیں 
یار بے خبر کے نہ ہونے سے فنکار کے لئے شاید ہی کوئی اور بات اتنی تکلیف دہ ہو۔مقبولیت کے منہ موڑنے کے بعد کراچی کی سڑکوں پر ہر آتے جاتے سے پان کیلئے اٹھنی مانگنے والا شہرہ آفاق فلم پکار اور دوسری ہٹ فلموں کا ہیرو پرنس آف منروا صادق علی ہو۔ یا سرکاری ہسپتال کے جنرل وارڈ میں ایک جوس کے ڈبے کے لئے دست سوال دراز کرنے والی انڈیا فلم انڈسٹری کی معروف و مقبول ”لارا لپا گرل“ اور پاکستان میں سرفروش جیسی بیسیوں ہٹ فلموں کی خوبصورت فنکارہ مینا شوری جس پر فلمائے گئے گیت آج بھی اتنے ہی مقبول ہیں (میرا نشانہ۔دیکھے زمانہ اور تیری الفت میں صنم) یا پھر ایک رئیس زادہ فنکار وحید مراد جس نے ایک زمانے کو اپنے سحر میں گرفتار رکھا،جب شہرت نے منہ موڑا تو وہ کہیں کا نہ رہا،آخری دنوں میں اس نے بہت کوشش کی کہ ایک بار پھر وہی دور لوٹ آئے اور اس کے لئے اس نے معاون اداکار کے طور پر بھی فلمیں کیں بلکہ ایک فلم میں تو وہ اپنے پرانے ڈرائیوراور پشتو،اردو کے بے حد عمدہ اور مقبول فنکار کے ساتھ بھی ایک فلم کرنے پر مجبور ہوا،مگر جب بات نہ بنی تو تنہائی کا شکار ہو کرایلوس پریسلے کی طرح بھری جوانی میں یہ بھرا میلہ چھوڑ چلا۔ یعنی بات وسائل سے بڑھ کر قریبی دوستوں کے روّیے اور تنہائی کی بھی ہے۔ ”خبر بھی کوئی نہیں۔یار ِ بے خبر بھی نہیں“ بس اتنا ہے کہ وسائل کی عدم موجودگی سے بچھڑنے والے اور اس کے گھرانے کا دکھ اور زیادہ ہو جاتا ہے۔خودمیں جب کام کر رہاہوتا ہوں تو کوشش کرتا ہوں کہ پرانے وقتوں کے فنکاروں کے گائے ہوئے لا زوال گیتوں کی دھیمی دھیمی آواز کمرے کے ماحول کو خوشگوار بنائے رکھے‘ہر چند کچھ ہی دیر بعد میں اس سے بیگانا ہو کر اپنا کام کر تا رہتا ہوں،مگر اس وقت اچانک میں چونک جاتا اور جیسے برقی رو کے اچانک چلے جانے سے بلب بجھ جائے یا پنکھا رک جائے،اسی طرح لیپ ٹاپ کے ”کی بورڈ“ پر میری انگلیاں رک جاتی ہیں، یہ عجیب بات کہ جس موسیقی کی آواز آپ نہیں سن رہے ہوتے اس کے بند ہوتے ہی آپ بے چین ہو جاتے ہیں بلکہ اس بات کو یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ آپ کتنی بھی عمدہ، قیمتی اور ایور لاسٹنگ بھینی بھینی یا بہت تیز قسم کی خوشبو یا ”مشک“ لگا لیں اس کا احساس آپ کو فقط چند ثانیہ تک ہی ہوتا ہے، پھر آپ اس سے بیگانہ ہو جاتے ہیں، تا وقتیکہ کوئی خوش ذوق دوست (بھلے سے آٹھ دس گھنٹہ گزر چکے ہوں اور آپ خود بھی بھول چکے ہوں) آپ کو بتا نہ دے یا پوچھ نہ لے کہ ”کون سی خوشبو لگائی ہے“ گویا مہک تو آپ کے ساتھ ساتھ ہی دن گزار رہی تھی مگر آپ کو تو گھر سے نکلنے کے بعد سے ہی محسوس نہیں ہو رہی تھی یا پھر آپ اس کے عادی ہو چکے تھے بس یہی حال موسیقی کا بھی ہے، البتہ جب میں کچھ دیر کے لئے سستانا چاہتا ہوں یا خود کو تازہ دم کرنا چاہتا ہوں تو پھر میں یو ٹیوب پر ماضی کے ان نامور اور بے بدل فنکاروں کی زندگی کے بارے میں کوئی دستاویزی فلم دیکھنا پسند کرتا ہوں جو ان دنوں قریہ گمنامی کے باسی ہو چکے ہوتے ہیں، یا پھر اپنی باری بھر کے بچھڑ گئے ہوتے ہیں، مگر ان کی زندگی کے آخری دور کی کہانی کچھ زیادہ دل خوش کن نہیں ہوتی۔ بہت کم ایسے فنکار یا فنکارائیں ہیں جو شو بز سے جانے کے بعد بھی آسودہ اور باوقار زندگی گزارتی ہوں اکثر کی زندگی کا اخیر درد ناک ہو تا ہے، پھر حیران کن حد تک اپنی فلموں میں لاکھوں کروڑوں کمانے والوں نے مجال ہے جو ذرا بھی پس انداز کیا ہو، ان کا خیال یہی ہو تا ہے کہ زندگی جیسے جوانی میں مہربان ہے اسی طرح ہمیشہ مہربان رہے گی۔ مگر وقت ایک سا کب رہتا ہے کیسے ہو سکتا ہے آتش نے خوب کہا ہے
 ہمیشہ رنگ ِ زمانہ بدلتا رہتا ہے
 سفید رنگ ہیں آخر سیاہ مو کرتے 
 وہ یہی سمجھتے ہیں کہ یہ ہنگامہ آرائی مستقل ہے ایسا نہیں ہو تا وقت بہت سفاک ہے اپنی دل کی چال چلتا ہوا اچانک ایک ایسا موڑ مڑ جاتا ہے کہ پیچھے اپنی گرد بھی نہیں چھوڑتا اس لئے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ جو زندگی کا رونق میلہ ہے اس کی رنگینیاں اور رعنائیاں ہمیشہ سے قائم ہیں اور ہمیشہ قائم رہیں گی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کی رونقوں میں تبدیلی آتی رہتی ہے اور آتی رہے گی۔ کوئی بھی میلہ ہنگاموں سے عبارت ہوتا ہے اور ان ہنگاموں میں اگر کوئی بچھڑ جائے یا اس سے کوئی جڑ جائے تو یہ وقت کے لئے ایک معمول کی سرگرمی ہے اس سے میلہ کی رونقیں متاثر نہیں ہوتیں،بس اتنا ہو تا ہے کہ بچھڑنے والے کے حلقہ میں شامل کچھ چہرے ملول ضرور ہو جاتے ہیں مگر یہ اداسی بھی محض چند روزہ ہوتی ہے۔کیونکہ زندہ لوگوں کو تواسی میلے سے جڑے رہنا ہوتا ہے امتدادا ِ زمانہ سے پہلے پہل نام اور پھر شکلیں بھی ذہن کی تختی سے مٹنے لگتی ہیں، جون ایلیا نے درست کہا ہے۔
 کیا ستم ہے کہ اب تری صورت
 غور کرنے پہ یاد آتی ہے 
  اور مان لیں کہ شو بز کے پرستاروں کا حافظہ بہت اچھا نہیں ہو تا ادھر آپ چھوٹی بڑی سکرین سے ہٹے ادھر لوگوں نے اپنی چاہت کے نگار خانے سے آپ کی تصویر ہٹا دی‘آٹو گراف کے لئے لمبی قطار میں کھڑے ہونے والوں کو بعد کے زمانے میں یاد کرانا پڑتا ہے کہ آپ نے پہچانا نہیں ”میں وہی ہوں مومن مبتلا“ اور وہ پرستار اسے پہچان کر بھی بس اتنا کہہ کر اور شانے اچکا کر آگے بڑھ جاتا ہے ”اوہ۔ اچھا اچھا“ ظاہر ہے باقی کا سارا وقت پھر منیر نیازی کے شعر کے سائے تلے گزار نا پڑتا ہے۔
 آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول 
 عبرت سرائے ِ دہر ہے اور ہم ہیں دوستو