پاکستان میں زیادہ تر والدین اپنی اولاد کے حوالے سے پہلے ہی اس بات کا تعین کر لیتے ہیں کہ بچوں کو بڑے ہو کر کس شعبے میں جانا ہے۔ ایک زمانے میں ڈاکٹر اور انجینئر سرفہرست ہوتے تھے تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس سوچ میں تھوڑی تبدیلی بھی آئی ہے اور پروفیشنز کی لسٹ میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ تقریبا ًپاکستان کے ہر دوسرے بچے کی کہانی ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہے۔ کون کیا بننا چاہتا تھا اور کیا بن گیا سے لے کر اسے کیا بننا چاہیے ہے تک کے جملے سب بچے ہی سنتے ہیں۔پاکستان کے تعلیمی نظام پر نظر ڈالیں تو سکول اور کالج تک چند مخصوص مضامین ہی پڑھائے جاتے ہیں۔ جن میں سائنس، ریاضی، کمپیوٹر اور دیگر بنیادی مضامین شامل ہیں۔زیادہ تر بچے اس بات سے لاعلم ہوتے ہیں کہ ان مضامین کے علاوہ کون کون سے مضامین موجود ہیں۔
والدین سمیت زیادہ تر تعلیمی ادارے بچے کو مختلف اقسام کے مضامین سے متعارف ہی نہیں کرواتے جو ان کی سوچ کو ایک حد تک محدود کر دیتا ہے۔ایک سروے کے دوران 90 فیصد سے زیادہ بچے یہ نہیں جانتے تھے کہ جو کیریئر وہ چننا چاہتے ہیں، اس کے لیے انھیں کون سے مضامین پڑھنا ہوں گے۔دیگر وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں زیادہ تر لوگ روایتی کیریئر کو کمائی اور عزت دار پروفیشن سے جوڑتے ہیں ہمارے ہاں اگر کوئی بچہ روایتی پروفیشن سے ہٹ کر کوئی کیریئر چنتا ہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ اس میں پیسہ نہیں ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیریئر کے انتخاب میں رہنمائی اور مشاورت کتنی ضروری ہے؟اس شعبے کے ماہرین کے مطابق بچے اپنی پسند کا کیرئیر اس لیے بھی نہیں چن پاتے کیونکہ ہمارے ہاں بچے اپنے والدین پر انحصار کرتے ہیں۔
ان کی پڑھائی کا خرچہ ان کے والدین اٹھاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے انھیں ان کی پسند کو بھی مد نظر رکھنا پڑتا ہے۔ ہمارے زیادہ تر تعلیمی اداروں خصوصا سکولوں میں بچوں کو کیریئر سے متعلق رہنمائی دینے کا رواج نہیں ہے جبکہ دنیا کے زیادہ تر ترقی یافتہ ممالک میں یہ عمل بچپن سے ہی شروع کر دیا جاتا ہے۔ اور اس عمل کی والدین کے ساتھ ساتھ زیادہ ذمہ داری اساتذہ پر عائد ہوتی ہے کیونکہ وہ بچے کا شوق اور ان کا ٹیلنٹ دیکھ کر اسے مزید نکھارنے میں مدد کر سکتے ہیں۔
اگر والدین اپنے بچے کے انتخاب پر اعتماد کا اظہار کریں اور تعلیمی ادارے بچے کی صحیح رہنمائی کریں تو بچہ ایک کامیاب پروفیشل بن سکتا ہے۔ اور دیکھا جائے تو اس وقت ضرورت ہی یہی ہے کہ بچوں کو مستقبل کے حوالے سے مکمل آگاہی دی جائے اور انہیں معلوم ہو کہ انہوں نے آگے جا کر معاشرے میں کس مقام پر فائز ہونا ہے اور کیا ذمہ داری نبھائیں گے ترقیافتہ ممالک میں بچوں کو شروع سے ہی ایسے پیشوں کے حوالے سے تربیت دی جاتی ہے جو ان کے ذہنی رجحانات سے مطابقت رکھتے ہوں اور جن کی طرف ان کا میلان ہو جبکہ ہمارے ہاں بچوں کو والدین کی مرضی سے پڑھنا بھی ہوتا ہے اور آگے جا کر پیشہ ورانہ زندگی میں قدم بھی رکھنا ہوتا ہے چاہے وہ شعبہ انہیں ناپسند ہی کیوں نہ ہو اس کی وجہ سے بعد میں ڈھیر سارے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔