سیلاب زدہ علاقوں میں غذائی عدم تحفظ 

اقوام متحدہ کی تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سندھ کے 22 میں سے 18 اضلاع میں سیلاب کی سطح 34 فیصد اور کچھ اضلاع میں 78 فیصد تک کم ہونے کے باوجود موجودہ صورتحال متاثرہ علاقوں میں غذائی عدم تحفظ کو مزید بڑھا سکتی ہے۔  سیلاب کے سبب سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے زیادہ متاثرہ علاقوں میں پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے بڑھتے ہوئے کیسز بھی ایک بڑی تشویش کا سبب بن چکے ہیں۔اقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ برائے انسانی امور نے یکم اکتوبر کو جاری ہونے والی اپنی رپورٹ میں کہا کہ بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں حالات معمول پر آنا شروع ہو گئے ہیں اور درجہ حرارت میں کمی آنا شروع ہو گئی ہے۔تعلقہ قبو سعید خان، شہداد کوٹ، قمبر، وارہ اور نصیر آباد کے بالائی علاقوں میں مجموعی طور پر پانی کی سطح کم ہورہی ہے جبکہ گڈو، سکھر اور کوٹری بیراجوں پر دریائے سندھ معمول کے مطابق بہہ رہا ہے۔تباہ کن سیلاب کے سبب متاثرہ علاقوں میں غذائی عدم تحفظ کا خدشہ ہے، سیلاب سے قبل ہی بلوچستان، خیبرپختونخوا اور سندھ کے 28 اضلاع میں انٹیگریٹڈ فوڈ سیکورٹی فیز کی درجہ بندی(آئی پی سی) کے جائزے سے جولائی اور جون کے درمیان 59 لاکھ 60 ہزار لوگوں کے غذائی بحران اور غذائی ایمرجنسی سے متاثر ہونے کا تخمینہ لگایا گیا تھا، دسمبر 2022 سے مارچ 2023 تک یہ شرح بڑھ کر 72 لاکھ افراد تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔آئی پی سی دراصل تجزیاتی آلات اور عمل کا ایک مجموعہ ہے جو عالمی سائنسی معیارات کے مطابق غذائی عدم تحفظ کی صورتحال کی شدت کا جائزہ اور درجہ بندی پیش کرتا ہے۔سندھ کے کئی علاقے اس وقت سیلاب کی زد میں ہیں اور ان علاقوں تک امداد کے لئے رسائی ایک چیلنج بن چکی ہے، بہت سے لوگ عارضی پناہ گاہوں میں غیر صحت بخش حالات میں رہنے پر مجبور ہیں، بنیادی سہولیات تک محدود رسائی کے پیش نظر صحت عامہ کے بڑے بحران کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ستمبر میں تینوں صوبوں میں حکومت کی زیر قیادت ملٹی سیکٹر ریپڈ نیڈز اسسمنٹ(آر این اے)سے معلوم ہوا ہے کہ پانی کی فراہمی کے تباہ شدہ انفراسٹرکچر کی وجہ سے صفائی ستھرائی کے معمولات کے لئے غیرصحت مندانہ طریقے اپنانے کا رجحان بڑھ رہا ہے، متاثرہ علاقوں میں سیلاب سے قبل کھلے عام رفع حاجت کی شرح 21 فیصد تھی جو کہ اب بڑھ کر 35 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔تقریباً ساڑھے 9 لاکھ گھرانوں کے لیٹرین کو نقصان پہنچ چکا ہے یا ان تک رسائی ممکن نہیں رہی، ایک اندازے کے مطابق 63 لاکھ لوگ متاثر ہوئے، علاوہ ازیں سیلاب متاثرین میں سے 14 فیصد لوگ سہولیات کی کمی اور محدود آگاہی کی وجہ سے ضروری اوقات میں صابن سے ہاتھ نہیں دھوتے۔سیلاب متاثرین میں غذائیت کی کمی بھی تشویش کا باعث ہے، سیلاب سے قبل بلوچستان، خیبرپختونخوا، پنجاب اور سندھ میں غذائی قلت کی شرح پہلے ہی زیادہ تھی، 2 سال سے کم عمر کے 96 فیصد بچے مناسب خوراک نہیں کھا رہے تھے اور 5 سال سے کم عمر کے 40 فیصد بچے دائمی طور پر غذائی قلت کا شکار تھے۔تازہ جائزے میں ان متاثرہ اضلاع میں ستمبر سے نومبر کے درمیان 86 لاکھ سے زائد افراد کے غذائی عدم تحفظ اور غذائی ایمرجنسی کا شکار ہونے کا تخمینہ ظاہر کیا گیا ہے۔ دوسری طرف حکومت کی زیر قیادت انسانی ہمدردی کی بنیاد پر سیلاب زدہ علاقوں میں امداد کا سلسلہ جاری ہے، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت 23 لاکھ سے زائد سیلاب متاثرہ خاندانوں میں 25 ہزار روپے فی گھر نقد امداد پہنچائی جا چکی ہے۔ملکی اور بین الاقوامی این جی اوز خوراک، صحت، نان فوڈ آئٹمز، پانی، صفائی اور حفظان صحت کے حوالے سے معاونت سمیت دیگر سرگرمیوں کے ذریعے امداد کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں، نیشنل ہیومینٹیرین نیٹ ورک کے 63 اور پاکستان ہیومینٹیرین فورم کے 37 ارکان 76 اضلاع میں سرگرم ہیں۔پاکستان ریڈ کریسنٹ، انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈ کراس اینڈ ریڈ کریسنٹ سوسائٹیز اور اس کے شراکت داروں کے تعاون سے سندھ، بلوچستان، خیبرپختونخوا، پنجاب اور گلگت بلتستان میں ہنگامی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔اقوام متحدہ سمیت انسانی ہمدردی کے تحت امداد کے لئے سرگرم دیگر اداروں نے بلوچستان، خیبرپختونخوا  اور سندھ میں نقد امدادبھی تقسیم کی ہے۔پاکستان فلڈ ریسپانس پلان 30 اگست کو شروع کیا گیا تھا جس کے تحت 52 لاکھ ضرورت مند افراد کی فوری ضروریات کو پورا کرنے کے لئے 16 کروڑ 3 لاکھ ڈالر کی اپیل کی گئی تھی، صورتحال میں مزید بگاڑ اور اس کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی ضروریات تحت اس اپیل میں اضافے کا امکان ہے۔جہاں تک حالیہ مون سون کے نتیجے میں آنے والے سیلابوں کا تعلق ہے تو اب اس امر میں کوئی شک نہیں کہ یہ موسمیاتی تبدیلی کا چکر ہے جس سے اگر اس وقت پاکستان متاثر ہوا ہے تو آنے والے دنوں میں یہ مسئلہ کسی بھی دوسرے ملک کو درپیش ہوسکتا ہے۔ اس لئے اب عالمی برداری کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس ضمن میں نہ صرف پاکستان کی مدد کرے بلکہ مستقبل کے لائحہ عمل کے حوالے سے بھی جنوبی ایشیائی ممالک کے ساتھ تعاون کرے کیونکہ جن مسائل کا جنوبی ایشیاء کے  ترقی پذیر ممالک کو سامنا ہے اس کی سراسر ذمہ داری ترقی یافتہ ممالک پرعائد ہوتی ہے جنہوں نے صنعتی ترقی کیلئے بے تحاشا ایندھن کے استعمال کے ذریعے ماحول کو پراگندہ  کیا اور ان ممالک کی غیر دانشمندانہ پالیسیوں کے نتیجے میں اب اگر سامنا ہے مشکلات اور مسائل کو تو وہ ترقی پذیر ممالک ہیں جو ان ممالک کا بویا ہوا کاٹ رہے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جن کو موسمیاتی تبدیلیوں کے نتائج کا پہلے مرحلے میں ہی سامنا کرنا پڑا۔