سیاسی استحکام اور جمہوری اقدار کا فروغ 

اس وقت سیاسی منظرنامے پر تلخی غالب ہے جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کو درپیش مشکل حالات کے پیش نظر سیاسی قیادت تحمل و برداشت کا مظاہرہ کرے۔ہفتہ رفتہ اس حوالے سے اہم ہے کہ اس دوران کئی اہم نوعیت کے کیسز کے نمٹنے کے بعد اب سیاست کے میدان میں ہر ایک کی اپنی اپنی دوڑ  جاری ہے،اس صورت حال کو سیاست کی بہتری اور سیاسی توازن قائم کرنے کے لئے استعمال کیاجانا چاہئے اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب سیاسی اختلافات کو ذاتی عناد میں تبدیل کرنے سے باز رہا جائے۔ سیاسی اختلافات اصولی طور پر بری چیز نہیں، بشرطیکہ یہ اصولی بنیادوں پر ہو، اختلاف رائے سیاست اور سماج کی فکر میں حسن پیدا کر سکتا ہے، مگر ہمارے ہاں اختلافات کی حد بندی کا اصول لاگو نہ ہونے کی وجہ سے سیاسی اختلاف شخصی عداوت میں تبدیل ہوتے دیر نہیں لگتی اور اس کا اثر صرف سماجی سطح پر نہیں، پارلیمان میں بھی شدت سے ظاہر ہوتا ہے۔

 یہ جمہوریت کا حسن نہیں، ایک دوسرے کی ذات پر حملے،بد اخلاقی کی دیگر صورتیں سیاسی وقار کے شایان شان نہیں، اس رویے سے نقصان یہ ہوا کہ ہماری سماجی زندگی اور پارلیمانی ایوان، سیاسی مکالمہ سے محروم ہوچکے ہیں، راہنما قوموں کے مزاج کی تعمیر کرتے ہیں، مگر جب راہنما خود ہی اپنے سیاسی مدمقابل کے احترام و لحاظ سے لاپرواہ ہو تو عوام پر اس کا اثر کیوں کر نہ پڑے، جو بے لحاظی، ناشائستہ پن،سوشل میڈیا پر نظر آتا ہے، سیاسی رہنماؤں کو اس کی ذمہ داری قبول کرنی چاہئے۔ ہم قومی زندگی کی پون صدی مکمل کر چکے ہیں، کسی قوم کو اپنی سمت درست کرنے، فکری تیاری اور اہداف اور اصولوں کا تعین کرنے میں اس سے زیادہ وقت نہیں لینا چاہئے، ہمارے سامنے کے واقعات ہیں کہ اس سے نصف مدت میں بھی کئی ممالک نے اپنا آپ منوایا، ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے، ایسے سوالات ہمارے قومی بیانیہ کا حصہ ہونا چاہئیں۔

 منزلوں کا تعین کردار اور عمل پر نظر ثانی کی ترغیب دے سکتا ہے، قوموں میں فکر کی جوت جگانے کے لیے سیاسی رہنما بروئے کار آتے ہیں، اب ہمارے سیاسی رہنماؤں کوبھی یہ ذمہ داری اٹھانا ہوگی۔ اسی میں ملک و قوم کا سیع تر  مفاد  ہے کہ وہ ایک دوسرے کو باعزت ناموں سے پکاریں، ایک دوسرے کا احترام کریں اور اپنے کارکنوں کو بھی تاکید کریں کہ وہ سیاسی مخالفت کو ذاتی عناد میں تبدیل نہ ہونے دیں۔ دیکھا جائے تو اسی سے تمام سیاسی جماعتوں کا بہترین مفاد وابستہ ہے۔ سیاست تو خدمت اور ملک و قوم کی رہنمائی کا بہترین ذریعہ ہے اور اگر دیکھا جائے تو ہمارے ہاں ہر دور میں ایسے سیاسی قائدین موجود رہے جو مشکل حالات میں قوم کی رہنمائی کرکے سیاسی بحرانوں میں ثالثی اور سیاسی جماعتوں کے درمیان تنازعات کو حل کرنے کیلئے شہرت رکھتے تھے‘ تاہم اس وقت صورتحال کچھ زیادہ حوصلہ افزاء نہیں۔ 

اس ضمن میں اب موجودہ سیاسی قیادت پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایساسیاسی ماحول تشکیل دیں کہ جہاں جماعتوں کے رہنما اور ان کے کارکن مخالف سیاسی جماعت کی رائے کو اس لئے وقعت دیں کہ یہ جمہوری عمل کے استحکام کیلئے ضروری ہے۔ حزب اختلاف اور حزب اقتدار دونوں ہی جمہوریت کیلئے لازم و ملزوم ہیں۔ اختلاف رائے کی قدر اس لئے کی جائے کہ اس سے کسی بھی مسئلے کے وہ پہلو سامنے آجاتے ہیں جو بصورت دیگر نظر انداز ہوسکتے ہیں۔