مناسب موقع

چیف جسٹس آف پاکستان نے تاحیات نا اہلی کے آرٹیکل 62 (1) (ایف کو کالا قانون قرار دے کر اس سوال کو اجاگر کیا ہے, جو انصاف پسند اور جمہوری حلقوں میں ایک مدت سے زیر بحث تھا، پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فیصل واوڈا کی الیکشن کمیشن کی طرف سے تاحیات نااہل سے متعلق فیصلے کے خلاف درخواست کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس نے قرار دیا کہ تاحیات نااہلی کا قانون ”ڈریکونین لا“ ہے‘ سیاسی نااہلی کے قوانین کی ہمارے ہاں اپنی ایک تاریخ ہے، یہ سلسلہ 1949کے پروڈا PRODAسے شروع ہوتا ہے، جو مارچ 1959 میں پوڈو PODOاور اگست 1969میں ایبڈو EBDOکی صورت میں سامنے آئے، چیف جسٹس آف پاکستان کے 62 (1) ایف کے حوالے سے ریمارکس ہمارے سیاسی حالات و واقعات اور مقدمہ بازی میں غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں، کیونکہ صرف فیصل واڈا ہی اس قانون کی پکڑ میں نہیں آئے۔

 سابق وزیراعظم نواز شریف اور تحریک انصاف کے سابق رہنما جہانگیر ترین کی نا اہلی بھی اسی قانون کا نتیجہ ہے۔ اپریل 2018 میں سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62 (1) ایف کے تحت نااہلی کی مدت میں تشریح کیس کا محفوظ فیصلہ سنایا تھا، جس کے تحت نااہل قرار دئیے گئے شخص کی نااہلی کی مدت تاحیات قرار دی گئی تھی اور سزا یافتہ شخص کو عام انتخابات میں حصہ لینے کیلئے نااہل قرار دیا گیا تھا، تاہم سپریم کورٹ کے حالیہ ریمارکس جہاں سابق فیصلے پر نظر ثانی کا رنگ لے لیے ہوئے ہیں، وہیں سیاستدانوں کیلئے بھی ایک طرح سے غور و فکر کا موقع پیدا کرتے ہیں‘ سیاسی رہنماؤں کو ادراک ہونا چاہئے کہ مخالفین کو شکار کرنے کی نیت سے جو پھندے لگائے جاتے ہیں، خود بھی ان میں پھنسنے کا احتمال رہتا ہے اور حالیہ تاریخ اس حوالے سے بڑی واضح ہے، چنانچہ ان قوانین پر نظر ثانی کا موقع پیدا ہوا ہے، تو کسی کو پس و پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔

ماضی میں بھی کئی قوانین پر سیاسی جماعتوں کو نظر ثانی کا موقع ملا، مگر ایسا نہ کر سکیں اور اس کا نتیجہ ان جماعتوں کو خود بھی بھگتنا پڑا، عدالت عظمی کے ریمارکس نے 62(1)ایف کے مزاج کی نشاندہی کر دی ہے، مگر قوانین میں ترمیم کا اختیار صرف پارلیمان کا ہے، کیا سیاسی رہنما اس حوالے سے نظر ثانی پر آمادگی دکھاتے ہیں یا نہیں، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ دیکھا جائے تو چیف جسٹس کے ریمارکس اس وقت سیاسی رہنماؤں کے احساس ذمہ داری اُجاگر کرنے کا ایک اشارہ ہے، چیف جسٹس کے ریمارکس اس وقت آئے، جب سینٹ میں میں ترمیم کیلئے بل پیش کیا گیا جس میں صادق و امین کی عبارت کو راست گو اور وفا شعارمیں تبدیل کرنے کی تجویز دی گئی ہے، چیئرمین سینیٹ کی طرف سے یہ مسودہ قائمہ کمیٹی قانون کو بھیج دیا گیا ہے، اگر سیاسی جماعتیں اتفاق رائے پیدا کریں تو اس قانون میں ضروری ترامیم کی جا سکتی ہیں۔