بھارت کا گھناؤنا چہرہ وقت گزرنے کے ساتھ بے نقاب ہوتا جارہا ہے اور عالمی سطح پر اب بھارت میں انسانی حقوق کی پائمالی پر تنقید کھلے عام ہونے لگی ہے۔ گذشتہ تین برس کے دوران الطاف شاہ دوسرے ایسے علیحدگی پسند رہنما ہیں جن کی دوران حراست شدید بیماری کی حالت میں موت ہوئی ہے۔ان کی بیٹی روا شاہ کئی ماہ تک انڈین حکومت سے اپیلیں کرتی رہیں کہ ان کے والد کو گھر میں نظربند کیا جائے تاکہ ان کا بہتر علاج ہو سکے لیکن متعصب اور مسلم کش پالیسی پر کاربند مودی سرکارنے ان اپیلوں کو نظرانداز کیا۔الطاف شاہ کی وفات سے چند دن قبل میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے ا ن کی بیٹی روا شاہ نے بتایا تھا کہ ڈاکٹروں نے بتایا کہ ان کا دل اور گردے بیکار ہو گئے ہیں صرف دماغ کام کر رہا ہے۔ ابو نے کچھ کہنے کے لیے کاغذ اور قلم کا اشارہ کیا لیکن اس کی اجازت نہیں دی گئی۔
اب میں تہاڑ جیل جا رہی ہوں، قلم اور کاغذ کی اجازت کے لئے…… ڈر یہ ہے کہ اتنی دیر میں وہ کہیں دم نہ توڑ جائیں، میں اپیلیں کر کر کے تھک گئی ہوں۔اور پھر روا کا یہ خدشہ آخرِ کار درست ثابت ہو گیا۔ہندوتوا ایجنڈے پر عمل پیرا مودی سرکار نے ان کی اپیل مسترد کر دی اور یوں حریت پسند کشمیری لیڈر آزاد فضاء میں آخری سانسیں نہ لے سکے۔روا سمیت دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کے والد الطاف شاہ ان درجنوں علیحدگی پسند رہنماؤں میں شامل تھے جنہیں 2017میں گرفتار کیا گیا تھا۔ آخری ایام میں جب بین الاقوامی میڈیا میں رواشاہ کی اپیل شائع ہوئی تو جیل حکام نے 65 سالہ الطاف شاہ کو نہایت علیل حالت میں دلی کے رام منوہر لوہیا ہسپتال میں منتقل کیا تھا جہاں ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ تیزی سے پھیلتے کینسر کی وجہ سے ان کے اہم اعضا ناکارہ ہو چکے ہیں۔روا کہتی ہیں کہ جیل حکام نے ان کے والد کی صحت کے بارے میں ان کے خاندان کو تب تک کچھ نہیں بتایا جب تک کینسر ان کے جسم میں مکمل طور پر پھیل نہیں گیا۔
روا شاہ اپیلیں کرتی رہیں کہ ان کے والد کو آل انڈیا میڈیکل انسٹیٹیوٹ منتقل کیا جائے جہاں سرطان کے علاج کے لیے باقاعدہ شعبہ ہے لیکن منگل کو رام منوہر لوہیا ہسپتال میں ہی الطاف شاہ کی موت ہو گئی۔روا نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا تھا کہ جب ان کی حالت انتہائی تشویشناک ہوئی تو ہمیں مطلع کیا گیا کہ وہ ہسپتال پہنچائے گئے ہیں۔ اب وہ سب رہنے دیجیے، کم از کم انھیں اس ہسپتال میں رکھتے جہاں کینسر کے علاج کا باقاعدہ شعبہ ہوتا۔ یہاں تو ڈاکٹروں نے ہاتھ کھڑے کر دئیے۔واضح رہے کہ دو سال قبل ایک اور حریت پسند رہنما اشرف صحرائی بھی دوران حراست ہی فوت ہوگئے تھے۔ ان کے اہل خانہ نے بھی الزام عائد کیا تھا کہ انہیں مناسب علاج فراہم نہیں کیا گیا۔
روا نے انسانی بنیادوں پر الطاف شاہ کی عبوری ضمانت کے لئے دلی ہائی کورٹ سے رجوع کیا تو این آئی اے کو گذشتہ بدھ کو الطاف شاہ کی طبی معائنے سے متعلق رپورٹس جمع کرنے کا حکم دیا گیا۔ لیکن روا کہتی ہیں کہ اس قدر تشویشناک حالت کے باوجود وہ رپورٹس دفتری طوالت کا شکار ہوئیں اور عدالت تک نہیں پہنچ پائیں۔رام منوہر لوہیاہسپتال میں قیام کے دوران الطاف شاہ کو کاغذ اور قلم مہیا کرنے سے متعلق اجازت نامہ لینے کے لئے روا شاہ گزشتہ ہفتے تہاڑ جیل کی جانب جا رہی تھیں جب انہوں نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ایک شخص مر رہا ہے، اپنوں سے کچھ کہنا چاہتا ہے، اس کے لیے قلم کاغذ مانگتا ہے اور بھارتی حکام کہتے ہیں کہ اجازت نامہ لاؤ۔ ہم نے سب تسلیم کر لیا تھا، لیکن انسانی بنیادوں پر انہیں آخری سانسیں اپنے گھر میں اپنوں کے ساتھ لینے کا بھی حق نہیں تھا کیا؟
آخری بات لکھ کر بتانے کا بھی حق نہیں تھا کیا؟اب وقت آگیا ہے کہ بین الاقوامی برداری بھارت کے متعصب اور مسلم کش پالیسی پر عمل پیرا مودی سرکاری کو آئینہ دکھائے اور اس پر اسی طرح پا بندیاں لگائے جس طرح کہ امریکہ اور مغربی ممالک دوسرے ممالک پر لگاتے آئے ہیں۔ بھارت کو محض اس بناء پر کھلی چھوٹ ہر گز نہیں ملنی چاہئے کہ وہ ایک بڑی منڈی ہے اور امریکہ سمیت مغربی ممالک وہاں پر اپنی مصنوعات کے ذریعے کمائی کی فکر میں ہیں۔ الطاف شاہ جیسے حریت پسند رہنماؤں کو جس طرح چن چن کر بھارتی سرکار اپنے راستے سے ہٹانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اس کے نتیجے میں مقبوضہ وادی میں مظلوم عوام کی آواز اٹھانے والا کوئی نہیں رہے گا۔