سیلاب زدگان کیلئے عالمی امداد سست روی کا شکار

پاکستان کو جن سیلابوں کا گزشتہ مو ن سون میں سامنا رہا اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی اور ان کو موسمیاتی تبدیلیوں کا شاخسانہ بتایا جارہا ہے‘ اگر چہ عالمی حدت میں اضافے کے حوالے سے پاکستان کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے تاہم اسے دنیا کے ان ترقی یافتہ ممالک کی صنعتی پالیسیوں کا خمیازہ بھگتنا پڑا جنہوں نے عالمی ماحولیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ اب یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آئی ہے کہ عالمی برداری نے پاکستان کی خاطر خواہ امداد بھی نہیں کی اگر چہ یہ ان کی اخلاقی ذمہ داری بھی ہے، کیونکہ پاکستان کو جن حالات کا سامنا کرنا پڑا اس کی ذمہ داری سراسر ان ممالک پرعائد ہوتی ہے جو اس وقت بڑے صنعتی ممالک کے بلاک میں شامل ہیں۔اقوا م متحدہ کے مطابق آٹھ سو سولہ ملین ڈالرامداد کی دوسری اپیل پراب تک صرف نوے ملین ڈالرجمع ہو سکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر کام کرنے والے ایک ادارے اوسی ایچ اے نے کہا ہے کہ بین الاقوامی برادری اور مختلف ممالک نے پاکستان میں سیلاب زدگان کی مدد کیلئے جو وعدے کیے تھے۔

 ان پر مکمل طور پر عمل نہیں کیا گیا۔ اقوام متحدہ کے ہیومنیٹیرین کوآرڈینیٹر جولین ہارنیس نے گزشتہ روز یہ کہا تھا کہ اقوام متحدہ کی رکن ریاستوں نے پاکستان کے سیلاب زد گان کی مدد کے حوالے سے جو وعدے کیے تھے وہ اتنی تیزی سے شرمندہ تعبیر نہیں ہوئے، جتنی تیزی سے وہ کچھ ہفتوں پہلے تک ہورہے تھے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ صاف پانی اور صحت کی سہولیات کی مد میں خاطرخواہ امداد نہیں ملی اور یہ کہ ڈبلیو ایچ او نے یہ پیش گوئی کی ہے کہ جنوری دوہزار تیئیس تک پاکستان میں ملیریا کے 27 ملین کیسز ہو سکتے ہیں‘ انہوں نے مزید کہا کہ ملیریا کہ وجہ سے پاکستان میں ہر سال پچاس ہزار افراد مرتے ہیں اور ملیریا کے کیسز میں اضافے سے شرح اموات مزید بڑھ سکتی ہیں، جو بڑی تشویش ناک بات ہے۔اس عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی طرف سے 180 ملین ڈالر امداد کی جو پہلی اپیل کی گئی تھی۔

 اس پر رکن ممالک نے بڑے متحرک انداز میں امداد دی لیکن آٹھ سو سولہ ملین ڈالر امداد کی اپیل پراب تک صرف 90 ملین ڈالر وصول ہوئے۔ امداد نہ ملنے کی بہت ساری وجوہات ہو سکتی ہیں۔بین الاقوامی برادری یوکرین کے مسئلے کے حوالے سے بری طرح مشکل میں پھنسی ہوئی ہے جبکہ یورپ میں مہنگائی بڑھ رہی ہے۔گیس کی قلت ہونے کے امکان ہیں اور وہاں پر مظاہرے ہو رہے ہیں اس سے قطع نظر کہ امداد میں سست روی کی وجوہات کیا ہیں‘یہ دیکھنا ضروری ہے کہ پاکستان عالمی برادری کا ایک فعال رکن ہے اور جس نے اقوام متحدہ کے بینر تلے عالمی امن کیلئے بیش بہا خدمات انجام دی ہیں کو بھی عالمی برداری کی طرف سے بھرپور سپورٹ کی توقع تھی۔اس لئے اگر ان مشکل حالات میں پاکستان کی خاطر خواہ امداد نہیں کی جاتی تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی طاقتیں اپنے مفادات کا کھیل کھیل رہی ہیں۔اقوا م متحدہ کے کردار کو اگر اس ضمن میں دیکھا جائے تو اس نے پاکستان کو بھرسپورٹ کیا ہے اور اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری نے پہلی فرصت میں پاکستان کا نہ صرف خود دورہ کیا بلکہ عالمی برادری کو بھی متحرک کرنے کی بھرپور کوشش کی۔