پاکستان کے حوالے سے امریکی صدر جوبائیڈن کا بیان پاکستان کے لئے بلا شبہ وجہ تشویش ہے، امریکی صدر کا بیان بے بنیاد اور حقائق کے منافی ہے اور پاکستان کے بارے میں یہ ایسا تبصرہ ہے، جو عالمی سطح پر پاکستان کے تشخص اور شناخت پر منفی انداز سے اثر انداز ہو سکتا ہے، امریکی صدر کو پاکستان کے جوہری اثاثوں کی حفاظت کے معیار پر لب کشائی سے پہلے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے جوہری توانائی کی رپورٹوں کو دیکھ لینا چاہئے تھا، دنیا بھر میں جوہری ٹیکنالوجی اور اثاثہ جات کی حفاظت کے قواعد و ضوابط کی نگرانی اسی ادارے کی ذمہ داری ہے اور اس کی جانب سے آج تک کوئی ایسی کوئی شکایت سامنے نہیں آئی کہ پاکستان کے جوہری اثاثوں کی حفاظت کا معیار مروجہ عالمی معیار سے مطابقت نہیں رکھتا۔ امریکی صدر کا یہ بیان امریکہ پاکستان تعلقات کے تناظر میں بھی غیر معمولی ہے، ابھی حال ہی میں دونوں ممالک باہمی تعلقات کی 75 سالہ تقریبات منارہے تھے اور کئی دہائیوں پر پھیلی ان کامیابیوں کو یاد کیا جا رہا تھا،جو دونوں ممالک نے مل کر حاصل کیں، مگر باہمی تعلقات کی خوشگوار یادوں کو امریکی صدر کے اس غیر ضروری بیان نے شدید دھچکا پہنچایا ہے۔ یہ بیان صرف پاک امریکہ تعلقات میں ہی قابل غور نہیں، بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی پوزیشن کو اس سے جو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے، اس حوالے سے بھی اس کا جائزہ لینا ضروری ہے، دنیا میں اعتماد کسی قوم کی معیشت اور معاشرت کے لئے بے پناہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے، کوئی ملک محفوظ ہے یا خطرناک یہ تاثر اس ملک اور قوم کے عالمی تشخص کو بناتا یا بگاڑتا ہے، بادی النظر میں امریکی صدر کا یہ بیان چین اور روس کے حوالے سے پاکستان کی اپنے مفادات کے تناظر میں اپنائی گئی پالیسی کا ردعمل معلوم ہوتا ہے، روس یوکرین جنگ میں پاکستان کی پالیسی معقول اور علاقائی صورت حال کے مطابق ہے، اسی طرح چین کا معاملہ ہے، مگر یہاں بھی امریکہ جو اعتراض اٹھا رہا ہے، وہ غیر منطقی اور بے معنی ہیں، خاص طور پر سی پیک کے معاملے میں امریکہ اور اس کے علاقائی کارندے بھارت کی تشویش بے جا اور حقیقت سے دور ہے، سی پیک ہر لحاظ سے ایک ترقیاتی اور معاشی منصوبہ ہے، اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس بین الاقوامی معاشی منصوبے کے اثرات پاکستان اور چین تک محدود نہیں۔ جہاں تک روس کے ساتھ روابط کی بات ہے تو
اس سلسلہ کو یوکرین کی جنگ سے جوڑنا قطعی نامناسب ہے، اور بے جا طور پر خود کو ٹھونسنے کے مترادف ہے۔ بدلتی ہوئی عالمی صورتحال میں مغرب کا یہ رویہ سکہ رائج الوقت نہیں رہا، فی زمانہ ہر ملک کو اپنا مفاد عزیز ہے اور اس کے مطابق اپنے تعلقات قائم کرنے کی سہولت حاصل ہے، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ دنیا دو نہیں تین قطبی ہو چکی ہے، مغرب بدلتے ہوئے ان حالات کے ساتھ جتنا جلد ہم آہنگی پیدا کرلے، نہ صرف اس کی اپنے لیے بلکہ دنیا کے لیے بھی مفید ہوگا، امریکی صدر نے پاکستان کے بارے میں جو بیان دیا ہے، یہ اس سوچ کی عکاسی ہے، جسے ماضی کی یادگار سمجھنا چاہئے، 'آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے دشمن کے ساتھ، مغرب کو اس سوچ سے نکلنا ہوگا، یہ تعلقات اور ممالک کی دوستی کے لئے اہم ہے۔ امریکی صدر کے بیان پر امریکی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرنا اور احتجاجی مراسلہ تھمانا، پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی مخصوص نوعیت میں ایسے واقعات بہت کم ہوئے ہیں، مگر امریکی صدر کے اس بیان کے بعد ایسا ہونا ناگزیر تھا، امید کی جانی چاہئے کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ پون صدی کے تعلق کی اہمیت کو سمجھے گا، امریکہ کو اس حوالے سے کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ پاکستان کے جوہری اثاثے اسی طرح محفوظ ہیں، جس طرح محفوظ رکھنے کا حق ہے، اور اقوام متحدہ کا متعلقہ ادارہ اس سلسلے میں اپنا اعتماد ظاہر کرچکا ہے۔