حالیہ تباہ کن سیلابوں اور بارشوں میں نہ صرف سترہ سو پچیس افراد جان کی بازی ہارگئے اور بارہ ہزار آٹھ سو ساٹھ سے زائد افراد زخمی ہوئے بلکہ ان سیلابوں سے 9 ملین ایکڑ سے زیادہ زمین بھی برباد ہوئی۔ماہرین کا خیال ہے کہ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو ملک زبردست فوڈ ان سکیورٹی یعنی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہوسکتا ہے، اس کا واضح مطلب یہ بھی ہے کہ ملک کی آبادی مزید غذائی قلت کا شکار ہو سکتی ہے۔ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق پاکستان کی بیس اعشاریہ پانچ فیصد آبادی پہلے ہی غذائی قلت کا شکار ہے جبکہ 44 فیصد بچوں کے غذائی قلت کی وجہ سے قد نہیں بڑھ پائیں گے۔تین کروڑ سے زیادہ افراد کو متاثر کرنے والے ان سیلابوں نے ملک میں گندم، کپاس، چاول اور کئی دوسری فصلوں کو بری طرح تباہ کیا ہے۔ زرعی امور کے ماہر ین کاکہنا ہے کہ سیلابوں اور اور بارشوں نے پاکستان کی زراعت کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ15 فیصد سے زیادہ چاول کی فصل تباہ ہوگئی ہے جبکہ 40 فیصد سے زیادہ کپاس کی فصل بھی تباہ ہوگئی ہے۔ سبزیوں کی تباہی بھی بڑے پیمانے پر ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ سندھ میں جانوروں کے لیے چارہ اُگایا جاتا ہے، وہ بھی بڑے پیمانے پر تباہ ہو گیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ مویشی پالنے میں بہت زیادہ دشواری ہوگی‘جس کی وجہ سے دودھ اور دوسری ڈیری پراڈکٹس کی قلت کا بھی خدشہ ہے۔ گزشتہ سال حکومت نے انتیس ملین ٹن سے زیادہ گندم کی پیداوار کا ٹارگٹ رکھا تھا۔موجودہ حکومت نے 28 ملین ٹن سے کچھ زیادہ اس کا ٹارگٹ رکھا ہے۔ لیکن شاید انہوں نے اس بات کو پیش نظر نہیں رکھا کہ سندھ میں بڑے پیمانے پر زرعی علاقے سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں اور وہاں پر پیداوار 60 سے 70 فیصد کے درمیان ہوگی۔ جس سے گندم کی پیداوار بہت بری طرح متاثر ہو سکتی ہے، جو غذائی مسائل کا سبب بنے گی۔ زرعی امور پر گہری نظر رکھنے وا لے ماہرین کے مطابقگندم کی پیداوار سندھ میں 40 فیصد تک متاثر ہو سکتی ہے۔ شکارپور اور لاڑکانہ گندم کی پیداوار کے حوالے سے بڑے ضلعے ہیں اور دونوں بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ جن علاقوں میں پانی کم ہو گیا ہے وہاں زمین ابھی تک گیلی ہے اور گندم کی بوائی یا بیچ ڈالنے کا موسم پہلے ہی آ گیا ہے اور پانی مکمل طور پر خشک ہونے کے امکانات کم ہیں۔ لہٰذا قوی امکان ہے کہ فوڈ ان سکیورٹی کا مسئلہ ہوگا۔