اگر مگر کا کھیل پھر شروع!

ٹی20 ورلڈ کپ 2022 ء میں گروپ2 میں شامل تمام 6 ٹیموں کے ایکشن میں نظر آنے کی امید  تھی اور نتائج امیدوں اور توقعات کے مطابق آئیں گے، یعنی جنوبی افریقہ، بھارت اور پاکستان اپنے اپنے میچ بآسانی جیت لیں گے‘ ابتدائی 2 میچ تک تو سب ٹھیک تھا مگر بدقسمتی سے دن کے آخری میچ میں زمبابوے نے پاکستان کو ایک رن سے شکست دے دی‘جب کوالیفائنگ راؤنڈ کے بعد یہ نتیجہ سامنے آیا کہ ہمارے گروپ میں آئرلینڈ اور سری لنکا نہیں بلکہ زمبابوے اور نیدرلینڈز پہنچی ہیں تو خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا کیونکہ خیال یہی تھا کہ بنگلہ دیش، زمبابوے اور نیدرلینڈز کو تو شکست دے ہی دیں گے بس اگر بھارت اور جنوبی افریقہ میں سے کسی ایک کو بھی شکست دے دی تو سیمی فائنل میں جگہ پکی۔مگر یہاں تو کایا ہی پلٹ گئی، بھارت سے تو شکست ہو ہی گئی، مگر جس زمبابوے کو ہلکا لیا جارہا تھا  اس نے بھی ہمیں دھول چٹا دی اور اب تواس بات کا ڈر ہے کہ بنگلہ دیش یا نیدرلینڈز میں سے کوئی ٹیم مزید سرپرائز نہ دے دے‘ زمبابوے کی کارکردگی کی جس قدر تعریف کی جائے کم ہے کیونکہ انہوں نے 130 رنز کے دفاع کیلئے پورے میچ میں کوئی غلطی نہیں کی‘یاد رہے کہ ٹی20 ورلڈ کپ کی تاریخ میں یہ کم ترین ہدف ہے جسے پاکستان حاصل کرنے میں ناکام رہا‘زمبابوے نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا اور اسے بہت ہی اچھا آغاز میسر آیا؛ابتدائی 4 اوورز میں بغیر کسی نقصان کے 38 رنز بنالئے تھے لیکن پھر پاور پلے کے اگلے 2 اوورز میں حارث رؤف اور آصف علی کی جگہ ٹیم میں شامل ہونے والے محمد وسیم جونیئر نے نہ صرف نورنز دیئے‘2 وکٹیں بھی حاصل کیں یوں سمجھ لیجئے کہ اس کے بعد باولرز نے زمبابوے کو130رنز تک محدود کردیا پاکستانی جانب سے اس میچ میں ہونیوالی واحد تبدیلی بالکل ٹھیک ثابت ہوئی اور محمد وسیم جونیئر نے 24 رنز دے کر 4 کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی ویسے تو یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ یہ کس کا فیصلہ یا مشورہ تھا جس کی وجہ سے محمد وسیم کو بھارت کے خلاف نہیں کھلایا گیا کیونکہ پچھلے ایک سال میں محمد وسیم نے ٹی20 کرکٹ میں 28 وکٹیں حاصل کی ہیں وہ بھی صرف 18.21 کی اوسط کے ساتھ‘ جو اس عرصے میں کسی بھی پاکستانی باولر کی جانب سے بہترین اوسط ہے لیکن بدقسمتی سے ایک بار پھر ہمارے بیٹسمین باولرز کی محنت سے فائدہ نہیں اٹھاسکے‘ ماضی کی طرح اس میچ میں بھی ہمارے اوپنرز نے سست آغاز فراہم کیا‘ ورلڈ کپ سے پہلے بھی ہمیں ایسے ہی آغاز ملتے رہے ہیں لیکن تب بابر اعظم اور محمد رضوان 10، 12 اوورز کھیل کر اپنے رنز بنالیتے تھے اور شکست کی تمام تر ذمہ داری مڈل آرڈر پر آجاتی تھی اور اوپنرز کی یہ کوتاہی زیادہ محسوس نہیں ہوتی تھی‘صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ پاور پلے میں ہماری ٹاپ کلاس بیٹنگ نے صرف 28 رنز بنائے جبکہ زمبابوے نے پاکستان کی ٹاپ کلاس باولنگ کے خلاف 47 رنز اسکور کئے اور یہی وہ فرق ہے جو جیت اور ہار کا فرق ثابت ہوا‘کپتان بابر نے 9 گیندوں پر صرف 4 رنز بنائے جبکہ رضوان نے 16 گیندوں پر 14 رنز۔حالات اب بھی ہاتھ سے نہیں نکلے تھے مگر جو بات اب ہر کوئی کررہا ہے، وہ محسوس ہونے لگی ہے کہ ٹیم انتظامیہ نے شاید کھلاڑیوں کو ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ نہیں کیا ہے۔چلئے اگر ہمیں سست آغاز مل گیا اور وکٹیں بھی جلدی گر گئیں تب بھی میچ جیتنے کیلئے حوصلے بلند رکھنا ناگزیر تھا‘جب 14ویں اوور میں 88 رنز پر پاکستان کی آدھی ٹیم پویلین لوٹی تھی، سچ پوچھئے تو تب بھی پاکستان کے پاس جیت کا پورا موقع تھا کیونکہ 30 گیندوں پر 42 رنز زیادہ مشکل نہیں تھے، یعنی محض 7 رنز فی اوور کے اعتبار سے ہدف کی جانب بڑھنا تھا اور وکٹ پر شان مسعود اور محمد نواز موجود تھے، مگر ہمیں شاید ہدف تک پہنچنے کی بہت جلدی تھی کیونکہ ہم نے ایک، دو رنز پر تکیہ کرنے کے بجائے گیند کو باونڈری لائن کے باہر پھینکنے کا فیصلہ جو کر رکھا تھا‘زیادہ دور کیوں جائیں، جب 4 گیندوں پر 4 رنز چاہیے تھے، تب بھی چوکا لگانے پر ہی توجہ رکھی‘ اگر ہر بال پر ایک رن بھی لیا جاتاتو بھی ہم اس شکست سے بچ سکتے تھے۔