خوفزدہ ذہنیت

خوف جب ذہنوں کو جکڑ لیتا ہے تو تمام زمینی حقائق دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور فیصلے شکوک و شبہات کی بھول بھلیوں میں الجھے رہ جاتے ہیں۔ جو خوف پرتھ میں پاکستانی بیٹنگ پر طاری نظر آیا، اس کے بعد اگر رینگ رینگ کر جیت مل بھی جاتی تو بدمزہ ہی رہتی۔چھ برس پہلے آسٹریلیا جاتے ہوئے اسد شفیق نے ان کنڈیشنز کا خلاصہ کچھ یوں کیا تھا کہ یہاں بس جلدی جلدی رنز بٹورنے چاہئیں قبل اس کے کہ کوئی اچھی گیند آپ کو پویلین کے سفر پر روانہ کر دے۔ آسٹریلیا کے بیشتر میدانوں بالخصوص پرتھ اور برسبین کا مزاج بالکل ایسا ہی ہے۔اس سے پہلے پاکستان نے میلبورن میں جو میچ کھیلا، وہ کنڈیشنز بھی بانسی تھیں مگر پرتھ کا معاملہ ہی کچھ الگ ہے۔ اور اگر وکٹ پر کچھ گھاس بھی ہو تو پاکستانی ڈریسنگ روم پر 2007 کے ورلڈ کپ والے آئرلینڈ میچ کے بھوت منڈلانے لگتے ہیں۔ 2015 کے کوارٹر فائنل میں بھی کچھ ایسا ہی قصہ ہوا تھا۔عقدہ صرف یہ ہے کہ جن کنڈیشنز میں پاکستانی پیسرز باؤلنگ کر رہے تھے، ان سے باؤلنگ کوچ شان ٹیٹ کا بہت گہرا رشتہ رہا ہے۔ انہی وکٹوں پر شان نے اپنی ساری کرکٹ کھیلی۔ تو پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ شان کے دئیے گئے پلان پاور پلے میں ہی کارگر ثابت نہ ہوئے اور ایسی تباہ کن پچ پر زمبابوے ہنستے کھیلتے پاور پلے کے مزے لوٹ گیا۔یہ عقل تسلیم کرنے کو ہی آمادہ نہیں کہ جہاں مزربانی، نگروا اور ایونز ٹی ٹونٹی کے مسلمہ بلے بازوں کے پلے نہیں پڑ رہے تھے، وہاں آخر ایسا کیا کرشمہ ہوا کہ شاہین آفریدی اور نسیم شاہ زمبابوین اوپنرز کے لئے تر نوالہ بن گئے؟پاور پلے میں پاکستان نے جو مومینٹم زمبابوے کے سپرد کیا تھا، مڈل اوورز میں اگرچہ حارث رؤف، شاداب اور وسیم جونئیر اسے واپس کھینچ کر لے آئے مگر تب تک کندھے جھک چکے تھے اور خوف امیدوں پر حاوی ہونے لگا۔زمبابوین پیسرز نے پاکستانی بیٹنگ پر قہر برپا کر دیا۔ اس میں بلاشبہ ان کی پیس اور مہارت کا بھی کردار تھا مگر اصل وجہ پرتھ کا باؤنس تھا جو پاکستانی بلے بازوں کے اعصاب پر سوار ہو چکا تھا اور وہ مسلسل کریز کے اندر گھستے جا رہے تھے۔ قدم منجمد ہو چکے تھے اور احتیاط نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔جس انداز میں پاکستانی اوپنرز نے اننگز کا آغاز کرنے کی کوشش کی، وہ شاید دبئی یا لاہور میں تو کامیاب ہو پاتی، پرتھ میں اس کا کوئی امکان نہیں تھا۔ یہاں زمبابوے نے شارٹ پچ کا بھی خوب استعمال کیا جبکہ پاکستانی پیسرز پاور پلے میں سوئنگ کھوجتے فل لینتھ سے سر پٹختے رہ گئے۔پاکستان کی ورلڈ کپ تاریخ میں یہ شکست ایک ایسا سانحہ ہے جسے ہر کوئی جلد بھلانا چاہے گا مگر یہ پھر بھی ناقابلِ فراموش رہے گی۔ نہ صرف یہ ایک بھوت بن کر منڈلائے گی بلکہ بیشتر کرکٹنگ اذہان کے لیے یہ ہمیشہ ناقابلِ تشریح بھی رہے گی۔یہ المیہ اس سے بھی بدتر ہے کہ پاکستان دراصل یہاں رن ریٹ بہتر کرنے کے لئے میدان میں اترا تھا۔ گویا فتح کا ایسا کامل یقین تھا کہ اب محض مارجن پہ غور ہو رہا تھا۔ مگر جہاں پاکستان رن ریٹ بہتر کرنے کے خواب دیکھ رہا تھا، وہاں دنیا ہی لگ بھگ اندھیر ہو گئی اور اب پاکستان کی ٹیم  اگر مگر میں پھنس چکی ہے۔دوسری جانب انڈیا کو اگرچہ قدرے آسان حریف کا سامنا تھا مگر روہت شرما کی ٹیم نے بھرپور کرکٹ کھیلی۔ سڈنی اور ایڈیلیڈ دو ایسی پچز ہیں جہاں ایشین بلے بازوں کے لئے اچھے رنز بنانے کی گنجائش ہوتی ہے۔ انڈین ٹاپ آرڈر نے پاکستان کے خلاف کھوئے گئے اعتماد کو بخوبی بحال کیا اور ایک اچھا مجموعہ ترتیب دے کر گروپ میں اپنی ٹاپ پوزیشن کو مستحکم کیا۔انڈیا اور پاکستان دونوں کو ہی اب جنوبی افریقہ کو مات دینی ہو گی تاکہ پاکستان کے لیے امکانات پیدا ہو سکیں۔انڈیا کے لیے سیمی فائنل تک رسائی کے امکانات روشن ہیں۔ اگرچہ جنوبی افریقہ کے خلاف پرتھ میں نورکیہ اور ربادا کی پیس کا مقابلہ ہرگز آسان نہیں ہو گا مگر فی الوقت انڈین ٹیم ایک شکست کا بوجھ اٹھا سکتی ہے اور بعید نہیں کہ جنوبی افریقہ بھی انڈیا کو ورط حیرت میں ڈال دے۔لیکن پاکستان نے اپنی مہم کا آغاز جس شکست خوردہ ذہنیت اور خوف کے حصار میں کیا ہے، اگر یہ قسمت کی مہربانی سے سیمی فائنل تک رسائی پا بھی لے تو ٹرافی پھر بھی پہنچ سے دور ہی رہے گی۔