ملکی سیاست میں ہیجان اور تلخ نوائی عروج پر ہے، اور یہ صورتحال سیاسی مفاہمت کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، کوئی فریق اپنے موقف پر نظر ثانی پر تیار نہیں، اس ماحول میں پس پردہ رابطوں کی جو تھوڑی بہت کوشش ہوئی، وہ بھی نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکی، پس پردہ رابطہ کاری کی کوششوں سے حکومت اور حکومت مخالف فریق میں پیش رفت کی خواہش کا احساس تو کیا جا سکتا ہے، مگر فریقین کا بے لچک رویہ مفاہمت کی پیش رفت کی راہ میں رکاوٹہے، اس صورتحال میں نقصان ملک اور عوام کا ہورہا ہے، جو سیاسی بے یقینی کی اس کیفیت میں پچھلے چھ ماہ سے پس رہے ہیں، یہ دورانیہ اگرچہ کئی عالمی عوامل کی وجہ سے بھی کساد بازاری کا شکار تھا، جن کے اثرات متعدد مستحکم معیشتوں پر بھی نظر آئے، مگر وطن عزیز میں اس دوران سیاسی بے یقینی نے اس بحران میں عمل انگیز کا کردار ادا کیا۔
ایک ایسا دور، جب ملک اور عوام کو سیاسی قیادت کی یکجہتی اور ہم آہنگی کی ضرورت تھی، تاکہ جمہوری دانش کے ساتھ درپیش مسائل سے نمٹنے کی راہ نکالی جاتی، ان حالات میں ہمارا سیاسی بحران معاشی مسائل کو دوآتشہ کرنے کا سبب بنا،اس وقت ایک عام آدمی کو جن مسائل کا سامنا ہے اور مہنگائی نے اس کیلئے زندگی کو جس طرح مشکل بنایا ہے اس کا احساس کرنا ضروری ہے اور یہ تمام سیاسی قیادت کی مشترکہ ذمہ داری ہے چاہے اس کا تعلق حکومت سے ہو یا حزب اختلاف سے۔ اس صورتحال میں ضروری ہے کہ سیاسی اختلافات کو کم کرنے کی کوششیں مسلسل جاری رکھی جائیں تاہم نتیجہ خیز اور بامقصد مکالمے کے لئے سیاسی فریقین میں بیانیے کی شدت کو کم کرنے اور ایک دوسرے کو قبول کرنے پر آمادگی ضروری ہے، صرف اسی صورت میں ہی سیاسی مذاکرات کا ڈول ڈالا جاسکتا ہے۔
مطالبات کی نوعیت پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے، مگر سب سے ضروری امر یہ ہے کہ آپس میں اعتماد پیدا کیا جائے اور یہ باہمی احترام کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ ملکی تاریخ میں شدید ترین سیاسی اختلافات والے کسی بھی دورانیہ میں مخالفین کے لئے اتنی نفرت اور تلخی نہیں دیکھی گئی، اس طرز سیاست کا نقصان ملکی سیاست اور قومی مزاج کو ہوا، سیاسی قائدین جو زبان استعمال کرتے ہیں ان کے پیروکار بھی اپناتے ہیں۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارا سیاسی بحران ایسا پیچیدہ نہیں کہ بات چیت سے حل نہ ہو سکے، لے دے کے دو تین ہی مطالبات ہیں، ان میں انتخابات کو مرکزی نکتہ سمجھ لیں، کیا یہ قبل از وقت ہونے چاہئیں یا اپنے وقت پر، جو کہ زیادہ دور نہیں، چنانچہ کیوں نہ متبادل صورتوں پر غور کرلیا جائے، مگر یہ مفاہمت اور بات چیت کے بغیر ممکن نہیں، آپ کسی بھی منطق اور دلیل سے بات منوا سکتے ہیں،مگر زبردستی کی اپنی رائے مسلط نہیں کر سکتے، یہی بات تمام سیاسی جماعتوں کے لئے قابل غور ہونی چاہئے۔