صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے دو روز قبل لاہور میں اخبار نویسوں سے ملاقات کے دوران ملک میں سیاسی مصالحت، مکالمے اور ہم آہنگی کی ضرورت کو اُجاگر کیا، صدر مملکت نے جن مسائل اور چیلنجز کا ذکر کیا اور جو حل تجویز کیے، ان میں دو رائے نہیں ہو سکتی، پاکستان کا عام شہری بھی ان مسائل کو سمجھ سکتا ہے، جن کا ہم سامنا کر رہے ہیں، ایسے حالات اگر کسی خاندان میں پیدا ہو جائیں،تب بھی اتفاق میں برکت کے محاورے یاد کرائے جاتے ہیں، ملک بھی ایک گھر کی طرح ہی ہے، اس گھر کے بڑوں میں اتفاق ہی ان مشکلات سے نمٹنے کے لئے ضروری ہے، اگر وہ اتفاق اور اتحاد کی بجائے باہم الجھتے رہیں تو مسائل بڑھتے ہیں کم نہیں ہو سکتے۔ جس صورتحال کا ہمیں قومی زندگی میں سامنا ہے، اس سے نمٹنے کے لئے قومی قیادت کی بات چیت ناگزیر ہے، اب تک اس حوالے سے جو واحد بڑی رکاوٹ نظر آتی ہے وہ سیاسی رہنماؤں کا ایک دوسرے کی رائے کو نہ سننا اورعدم برداشت کا مادہ ہے۔ اس
کھینچا تانی اور تناؤ میں ہمارے روز و شب کٹ رہے ہیں، مخالفین کے خلاف لفظی گولہ باری، ذرائع ابلاغ میں ایک دوسرے پر حملے، ہمارا سیاسی کلچر بن چکا ہے، کوئی یہ نہیں دیکھ رہا کہ ہم اس ملک میں رہ رہے ہیں جس کی تین کروڑ سے زائد آبادی سیلاب کی بدترین تباہی سے دوچار ہے اور مملکت پر ان شہریوں کا سہارا بننے کا فرض عائد ہوتا ہے، موسم سرما آن پہنچا ہے اور یہ بیچارے متاثرین کھلے آسمان تلے کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں، سیلاب سے متاثرہ آبادی کے معاشی تحفظ کے منصوبوں پر بھی تیزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ جلد از جلد یہ لوگ آباد اور بحال ہو سکیں، ملک کے سیاسی رہنماؤں کی اولین ترجیح تو اس سال کا سب سے بڑا انسانی بحران ہونا چاہئے‘ وزیراعظم نے کچھ دن پہلے عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں بتایا تھا کہ سیلاب نقصانات کا تخمینہ تیس ارب ڈالر ہے، اس بڑے نقصان کے ازالے کے لئے سیاسی سطح پر سنجیدگی اور فکرمندی کا احساس اُجاگر ہونا چاہئے، ہم ترقی یافتہ دنیا کو ماحولیاتی آلودگی کا ذمہ دار قرار دے کر ان سے امید کرتے ہیں کہ وہ ان نقصانات کے ازالے کے لئے ہماری مدد کریں گے، مگر ہمارے اپنے سیاسی رویے اور سرگرمیوں میں سنجیدگی کا فقدان ہے، قومی مصائب قوموں میں اتحاد کا احساس پیدا کرتے ہیں، مگر بدقسمتی سے بدترین سیلاب اور غیر معمولی چیلنجز بھی ہمارے قائدین کو متحد نہیں کر سکے، سیاسی اختلافات کو چھوڑ کر قومی مقاصد کی طرف رجوع اسی طرح ممکن ہے، جب سیاسی قیادت مل کر قومی مقاصد کی جانب
توجہ دے۔ اس کے لیے سیاسی وسعت نظری کی ضرورت ہے، جس مکالمہ یا ہم آہنگی کی جانب صدر مملکت نے اشارہ کیاہے، اس تک پہنچنے سے پہلے کئی مراحل ہیں جنہیں عبور کرنا ضروری ہے، بصورت دیگر مکالمہ مفید نہیں ہو سکتا۔ ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنے کی جمہوری روایات کو تقویت دینا ہوگی اور جمہوری اصولوں کو اپنا کر آگے بڑھنا ہوگا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں مشکل ترین حالات درپیش ہونے کے باوجود اگر سیاسی قیادت میں مل جل کر ملک کو مشکل سے نکالا ہے تو موجودہ حالات میں بھی یہی مسئلے کا حل ہے۔ اور اب بھی کوشش کی جائے تو اختلافات میں کمی آ سکتی ہے اور ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھ کر ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ حکومت او رحزب اختلاف میں ایسی شخصیات موجود ہے جو حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے افہام و تفہیم کی فضا پروان چڑھا سکتا ہے۔ ضرورت ہے تو صرف ایک دوسرے کی اہمیت کو تسلیم کرنے کی۔