سیاسی انتشار کی اس صورتحال میں ملکی معیشت مسلسل گراوٹ سے دوچار ہے، اس حوالے سے تازہ ترین اور تشویش ناک حقیقت دیوالیہ ہونے کے خطرات کو ظاہر کرنے والے پیمانے (کریڈٹ ڈیفالٹ سوئپ) میں بلند ترین اضافہ ہے، اکتوبر میں پاکستان کا پانچ سالہ کریڈٹ ڈیفالٹ سوئپ 52.8 فیصد تھا، جسے نومبر 2009 کے بعد بلند ترین سطح قرار دیا گیا تھا،تاہم گزشتہ ہفتے کے اختتام پر وطن عزیز کا کریڈٹ انڈیکس 64.2 فیصد تک پہنچ چکا ہے، یہ اشاریے ظاہر کرتے ہیں کہ ہماری فوری ادائیگی کی صلاحیت تیرہ برس کی کم ترین سطح پر گر چکی ہے،اور درآمدات اور قرضوں کی ادائیگی کے لیے درکار زرمبادلہ کی شدید قلت کا سامنا ہے، ماہرین معیشت کا اتفاق ہے کہ سیاسی عدم استحکام کا تسلسل ملک کومعاشی خطرات سے دوچار کرنے کا بنیادی سبب ہے، یہ حالات نہ صرف یہ کہ بیرونی سرمایہ کاری میں غیرمعمولی گراوٹ کا سبب بنے، بلکہ سمندر پار پاکستانی محنت کشوں کی ترسیلات میں بھی قابل ذکر کمی آئی ہے۔ سٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران براہ راست بیرونی سرمایہ کاری 47 فیصد کم ہو گئی، گزشتہ مالی سال کے دوران ملک میں 47 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری آئی تھی، جو اس سال 25 کروڑ 30 لاکھ ڈالر رہ گئی ہے، دوسری جانب ترسیلات زر کا یہ حال ہے کہ جولائی سے اکتوبر تک مجموعی طور پر ساڑھے آٹھ فیصد سے زائد کمی آئی ہے، اگر ترسیلات زر کی ماہانہ گراوٹ کا جائزہ لیا جائے تو مزید مایوس کن صورتحال سامنے آتی ہے، مثال کے طور پر گزشتہ اکتوبر کے مقابلے میں اس سال اکتوبر میں 15 فیصد کمی آئی ہے، جبکہ ماہانہ بنیادوں پر دیکھا جائے تو ستمبر کے مقابلے میں اکتوبر میں نو فیصد کمی آئی ہے۔ یہ حالات کیوں کر پیدا ہو رہے ہیں اس پر توجہ دینا حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل ہے، اور وہی مناسب اقدامات سے ایسے مسائل کا حل یقینی بناتی ہے، حقیقت کی دنیا میں نہ ہی ہمارے نعرے چلتے ہیں نہ دعوے، معاشی کایاکلپ سنجیدہ اقدامات اور مسلسل عمل کا تقاضا کرتی ہے، جب تک یہ نہیں ہوگا معاشی استحکام کا سوال پیدا نہیں ہو سکتا۔ ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک کو معاشی استحکام کی منزل حاصل کرنے کے لئے پالیسیوں میں تسلسل کی ضرورت ہوتی ہے، مگر ہم یہ بھی نہیں کر پائے،چنانچہ قومی پالیسی کی نگرانی اور ان پر عملدرآمد یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک جماعت اپنی حکومت میں کچھ اور پالیسی اختیار کرتی ہے تو دوسری کچھ اور، یہ حالات معیشت کی پائیداری اور استحکام کی ضمانت نہیں بنتے، پاکستان کے پاس معاشی ترقی کا بے مثال ملکہ ہے، جغرافیائی محل وقوع، معدنی دولت، وسیع میدانی علاقے، آبی وسائل اور افرادی قوت، مگر ان وسائل کو بروئے کار لانے کی صلاحیت اور حالات جب تک پیدا نہ ہوں، یہ اپنا اثر نہیں دکھا سکتے۔ اس مقصد کے لئے حکومت کی کوششیں بھی کارگر ثابت تب ہو سکتی ہے جب ملک میں سیاسی مفاہمت کا ماحول اور اور معاشی سرگرمیاں یکسوئی کے ساتھ جاری رہیں۔