اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس (COP 27) میں ماحولیاتی تبدیلی سے متاثرہ ترقی پذیر ممالک کے نقصانات کا ازالہ کرنے کے لئے فنڈ قائم کرنے پر اتفاق کر لیا گیا ہے، اس پیش رفت کو بہت اہم سمجھا جارہا ہے، وزیراعظم شہباز شریف نے اسے موسمیاتی انصاف کے ہدف کا پہلا بڑا قدم قرار دیا ہے، وزیرخارجہ بلاول بھٹو نے اس پیش رفت کو پاکستان کی ایک بڑی کامیابی قرار دیا ہے، جبکہ موسمیاتی تبدیلی کی وفاقی وزیر شیری رحمان نے اس اعلان کو دنیا بھر میں موسمیاتی مسائل کا سامنا کرنے والی اقوام کے لئے امید کا پیغام اور کوپ 27 کی ساکھ قائم رکھنے کی کوشش سے تعبیر کیا ہے، حقیقت بھی یہی ہے کیونکہ سالانہ عالمی ماحولیاتی کانفرنس سے بڑی امیدیں اور اس فورم پر ماحولیاتی تبدیلی بارے حساسیت سے بھرپور تقریروں اور رپورٹوں کے عملی نتائج میں بڑا فرق ہے، بڑی عالمی معاشی قوتوں کے سربراہان اور ماہرین کے حلقے اس کانفرنس کے موقع پر شد و مد سے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات پر گفتگو کرتے ہیں اور ان مسائل سے نمٹنے کے لئے وعدے وعید ہوتے رہتے ہیں، مگر عملاً ہر بڑی معیشت نے وہی کیا، جسے اپنے معاشی مفادات کے لئے ضروری سمجھا، معیشت کو ماحولیات پر ترجیح دی گئی اور موسمیاتی مسائل کو صرف بات چیت کی حد تک سنجیدہ لیا گیا، مگر اس رویہ کی قیمت پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک نے بے پناہ نقصان کی صورت میں ادا کی، جن کا عالمی ماحولیاتی تبدیلی میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے،مگر متاثرین میں وہ سرفہرست ہیں۔ ان ممالک کے نقصانات کا ازالہ کرنے کے لیے ترقی یافتہ ممالک 2009 سے امید دلا رہے ہیں، جب کوپن ہیگن میں ہونے والی کانفرنس میں ترقی یافتہ ممالک نے سو ارب ڈالر سالانہ فراہم کرنے کا وعدہ کیاتھا، مگر یہ وعدہ آج تک پورا نہیں ہوا، گزشتہ برس گلاسکو برطانیہ میں ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں اس ہدف کو 2023 تک پورا کرنے کی چھوٹ دی گئی تھی، 13 برس قبل کلائمنٹ فنانس کا جو وعدہ کیا گیاتھا، ہم ابھی تک اس پر عمل کے منتظر ہیں، چنانچہ "لاس اینڈ ڈیمیج فنڈ "کے ساتھ بہت سی امیدیں وابستہ کرتے ہوئے کوپن ہیگن کانفرنس میں کلائمنٹ فنانس کے وعدے کو پیش نظر رکھیں اور یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اس فنڈ کے معاملے میں ابھی کئی مسائل حل طلب ہیں، جن کو طے کئے بغیر آئندہ برس کی ماحولیاتی کانفرنس تک موخر کیا گیا ہے، تاحال یہ بھی فیصلہ بھی نہیں ہوا کہ اس فنڈ کی رقم کون دے گا، اس حوالے سے سفارشات بھی اگلے سال ہی مرتب ہونگی۔تاہم اس بات پر اتفاق رائے کو اہم پیشرفت مانا گیا ہے، اس کے لئے پاکستان کا جو کردار ہے، یقینا اس کی پذیرائی ہوگی، مگر اس معاملے میں جذباتیت کی بجائے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کیا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا، حقیقت یہ ہے کہ اس سال کے سیلابوں کی غیرمعمولی تباہی موسمیاتی تبدیلیوں کے نقصانات کا اتنا بڑا واقعہ ہے،جس کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں، مگر ان تباہ کن سیلابوں پر ہمیں صرف ہمدردی کی ضرورت نہیں، بلکہ نقصانات کے ازالے کے لیے دنیا کے عملی کردار کو دیکھنا ہے، اگر ایسا نہیں ہے تو سالانہ ماحولیاتی کانفرنس کے اختتام پر لاس اینڈ ڈیمج فنڈ کا اعلان بھی 2009 کے کلائمیٹ فنانس کی طرح کا وعدہ ہی سمجھا جائے گا، جس کے پورا ہونے کا 13 سال سے انتظار ہو رہا ہے۔