پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے۔ اسکو مزید ترقی دلانے کے لئے حکومتی سطح پر بہت کے ایسے کام سر انجام دینے ہیں کہ جن سے اس ملک میں ترقی کا پہیہ چل پڑے۔ ا س کے لئے سڑکیں،پُل، کارخانے، وغیر ہ بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے دیگر ملکوں اور اداروں سے قرض لئے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ دنیا کی اکانومی جن ممالک کے ہاتھ میں ہے اس لئے ہمیں جو بھی اورجہاں سے بھی قرض لینا ہے اُس کے لئے شرائط کی پابندی بھی کرنا پڑتی ہے۔ ان قرض دینے والے اداروں میں سر فہرست آئی ایم ا یف ہے کہ جس سے ہمارا ملک قرضے لیتا ہے مگر اُس کی کچھ شرائط بھی پوری کرنی ہوتی ہیں۔جن میں ٹیکسوں کا لگانا بھی شامل ہے۔ تو ہمارے ملک میں قرض لئے جاتے رہے اور اُن کی ادائیگی کے لئے مزید قرضے لئے جاتے رہے۔ جس سے قرضوں کا حجم روزبروز بڑھتا ہی گیا۔کیا ہی بہتر ہو کہ ملک میں ایسے منصوبوں پر توجہ مرکوز رکھی جائے کہ جس سے پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوا اور سڑکوں کی وجہ سے کارخانوں کے مال کو ملک کے دوسرے حصوں میں پہنچانے میں آسانی ہو اور کارکانوں میں پیداہونے والی اشیاء کی قیمتوں میں کمی آئے اور اس کے ساتھ ساتھ ایکسپورٹ میں بھی اضافہ ہو اور جب ایکسپورٹ میں اضافہ ہو گا تو اس کا فائدہ ہمارے کارخانہ داروں اور ہمارے کسانوں کو ہو گا۔ اس لئے کہ کارخانے وہ خام مال استعمال کرتے ہیں جو ہمارا کسان پید ا کرتا ہے۔اس طرح زراعت اور صنعت میں متوازی ترقی ہو رہی ہے۔ اب بجلی کے کارخانوں میں پیداواری صلاحیت کو اس حد تک لے جانا ہے کہ حکومت کی جانب سے بہت سے فیڈروں کو زیرو لود شیڈنگ پر لایا جائے اور کارخانوں کیساتھ ساتھ عام شہری کو بھی لوڈ شیڈنگ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔کسی بھی ملک میں ترقی کا پیمانہ وہاں پر توانائی کے وسائل سے استفادہ کرنا ہے اور جو ملک جس قدر فراوانی سے توانائی کے ذرائع سے استفادہ کرتا ہے وہاں پر ترقی کا سفر تیز ہوتاہے اور عوام کو سہولیات کی فراہمی کا حکومتی مقصد بھی پورا ہوتا ہے کیونکہ کارخانوں میں جب پوری گنجائش کے ساتھ پیدوار ہو تو ضروری ہے کہ وہ حکومت کو اس کے مناسبت سے ٹیکس بھی ادا کریں گے اور اس طرح جو ترقی کی رفتار ہے اس میں متعدد بہ اضافہ ہوگا یعنی جب پیداواری صلاحیتوں میں اضافہ ہوگا تو لامحالہ حکومت کے آ مدن میں بھی اضافہ ہو گا اور جب حکومت کی آمدن بڑھے گی تو یہ آمدن قرضوں کی ادائیگی میں کام آئے گی۔ یعنی اب لئے گئے قرضوں کی ادئیگی کے لئے مزید قرض نہیں لینا پڑے گا اور لئے گئے قرض بہت جلد ادا ہو جائیں گے کیونکہ جب قرضے پیداوری صلاحیتوں کے اضافے کیلئے خرچ ہو رہے ہیں تو ملکی پیداوار بھی بڑھے گی جس سے قرضوں کی ادائیگی بھی ہو جائے گی اوربجلی کے کارخانوں میں اضافے سے بجلی کی قیمتوں میں بھی کمی آئے گی اور ٹیوب ویلوں میں اضافہ بھی ہو گا اور یہ چلتے ہی رہیں گے۔ اس سے زراعت کو مزیدفروغ ہو گا۔ اور جس طرح لئے گئے قرضوں کو زراعت کی ترقی کے لئے استعمال کیا جارہاہے اس سے ملک زرعی اجناس میں بھی خود کفیل ہو جائے گا۔ اب اگر بات زراعت کی ہورہی ہے تو بد قسمتی سے پاکستان زرعی ملک ہے تاہم یہاں پر زرعی اجناس کی کمی ہے اور بیرون ملک سے درآمدات کے ذریعے یہ کمی پوری کی جار ہی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمیں زر مبادلہ کی کمی کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔اس کے لئے لازمی ہے کہ زراعت کی ترقی پرتوجہ مرکوز کی جائے اور زرعی زمینوں سے زیادہ سے زیادہ پیداوار کے حصول کیلئے بھی جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کیا جائے۔بہت سے ممالک میں زرعی زمین ہم سے بہت کم ہے تاہم زرعی پیدوار میں وہ ہم سے آگے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں پر جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے زرعی پیدوار میں اضافہ کیا گیا ہے اور فی ایکٹر پیداوار ہم سے زیادہ ہے۔ ایک وقت تھا کہ ملک کی آبادی کم تھی اور زرعی زمینیں زیاد تھیں اس لئے ملک میں زرعی پیدوار کی کمی کا اندیشہ نہیں تھا اب زرعی زمینوں میں اضافہ تو نہیں ہورہا تاہم آبادی میں ماضی کے مقابلے میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ اب ا س مسئلے کاحل یہی ہے کہ جو وسائل دستیاب ہیں ان سے دانمشندی کے ساتھ استفادہ کیا جائے اور وسائل کے ضیاع کو ہر قیمت پر روکا جائے۔