روس اور یوکرین کی لڑائی کا دائرہ پھیلنے کا خطرہ بدستور موجود ہے اور یوکرین نے گزشتہ روز کہا ہے کہ روس یوکرین پر نئے میزائل حملوں کی تیاری میں مصروف ہے۔ گزشتہ ہفتے روس کی جانب سے یوکرین کو درجنوں میزائلوں کے ذریعے نشانہ بنایا گیا تھا۔گزشتہ روز یوکرین پر روسی میزائلوں کی بارش میں یوکرین کا توانائی کا بنیادی ڈھانچابری طرح متاثر ہوا تھا، جس کے نتیجے میں لاکھوں یوکرینی باشندوں کو بجلی اور پانی کی ترسیل معطل ہو گئی تھی۔ یوکرین اس وقت شدید سردی کی لپیٹ میں ہے اور ایسے میں توانائی کی معطلی ایک خوفناک المیے کا باعث ہو سکتا ہے۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ یورپ کا زیادہ تر علاقہ روسی تونائی کے ذرائع پر انحصار کرتا ہے اور روس یوکرین جنگ سے یہاں پر حالات انتہائی تشویش ناک ہیں اور اس سال کا موسم سرما نہ صرف یوکرین بلکہ پورے یورپ کیلئے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوسکتا ہے۔دوسری طرف یوکرینی فوج کے ترجمان نے کہا ہے کہ روسی کی جانب سے بحیرہ اسود میں متعدد لڑاکا بحری جہاز پہنچائے گئے ہیں، جو کروز میزائلوں کے حملے کی صلاحیت کے حامل ہیں۔ فوجی ترجمان ناتالیا گومینیوک کے مطابق اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ روس تیاری میں ہے،ان کا مزید کہنا تھا، کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ روس رواں ہفتے کسی بھی وقت ایسا کوئی حملہ کر سکتا ہے۔اس موقع پر جب یوکرین میں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے کئی درجے نیچے ہے، ایسے میں روس نے یوکرین میں بجلی کے گرڈ کو نشانہ بنایا تھا۔ حکام کے مطابق یوکرین کا توانائی کا ڈھانچا مکمل طور پر تباہی کے دھانے پر ہے۔یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی نے گزشتہ شب شہریوں سے خطاب میں متنبہ کیا تھا کہ روس نئے فضائی حملوں کی تیاری کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ روس میزائلوں کے ذریعے منظم انداز سے یوکرین کو نشانہ بناتا رہے گا۔ زیلنسکی نے تاہم کہا کہ یوکرینی فوجی مغربی اتحادیوں کے ساتھ ملکر مہیا کردہ نئے دفاعی نظام کو فعال بنانے کی کوشش میں ہے۔واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے روسی حملوں کے بعد سے اب تک یوکرینی دارالحکومت کییف میں ایک لاکھ تیس ہزار شہریوں کے لیے بجلی کی فراہمی بدستور منقطع ہے۔ حکام کے مطابق مرمت کا کام جاری ہے اور جلد ہی شہریوں کی ایک بڑی تعداد کو بجلی اور پانی دستیاب ہو گا۔دوسری طرف ایسٹونیا کے وزیردفاع ہانو پیکْر نے کہا ہے کہ یوکرینی جنگ نے روس کو تاحال بہت زیادہ کمزور نہیں کیا ہے۔ پیکر نے اپنے دورہ برلن کے موقع پر میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ روسی نیوی اور فضائیہ اب بھی جنگ سے پہلے والی حالت میں ہیں۔ ان کے بقول زمینی فوج نے بھاری جانی نقصان اٹھایا ہے، تاہم روس اپنی بری فوج کو بھی جنگ سے پہلے والی پوزیشن پر واپس لا سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ روس اس جنگ سے سیکھ بھی رہا ہے اورایسے میں نیٹو کو ہرگز یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ روس سے خطرہ کسی بھی طور کم ہوا ہے۔ ایسٹونیا اگلے برس سے اپنی قومی پیداوار کا دو اعشاریہ آٹھ فیصد دفاع پر خرچ کرنے کا اعلان کر چکا ہے۔اس طرح دیکھا جائے تو روس اور یوکرین کی جنگ میں کمی آنے کی بجائے اس کادائرہ مزید پھیلنے کا خطرہ بدستور موجود ہے جو عالمی امن کیلئے نیک شگون نہیں۔جہاں تک روس کاتعلق ہے تو اس نے یوکرین جنگ سے اپنے مقاصد بڑی حد تک حاصل کرلئے ہیں، اس نے یوکرین کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کرکے سودا بازی کیلئے زمین ہموار کردی ہے اور اب اگر امریکہ یا یوکرین روس سے مقبوضہ علاقے واپس لینے کیلئے مذاکرت کے میز پر آتے ہیں تو روس لازمی طور پر یوکرین کی نیٹو میں شمولیت نہ کرنے اور دیگر ایسی شرائط عائد کرسکتا ہے جنہیں وہ اپنے مفاد میں بہتر سمجھے۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ روس کی معیشت یوکرین جنگ سے متاثر نہیں ہوئی ہے اور اس نے امریکہ کی طرف سے پابندیاں عائد کرنے کے باوجود دنیاکے بہت سے ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مزید مستحکم بنایا ہے جن میں چین قابل ذکر ہے۔