درپیش چیلنج

کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے جنگ بندی کے خاتمے کا اعلان امن وامان کے حوالے سے باعث تشویش ہے،  وطن عزیز میں ٹی ٹی پی کے خطرات کو مغربی سرحد کے دوسری جانب کے حالات سے الگ کرکے نہیں دیکھا جا سکتا، پاکستان کی جانب سے افغان امن عمل کی حمایت اور ہر ممکن تعاون کے ساتھ یہ امیدیں وابستہ تھیں کہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان کا اقتدار سنبھالنے والے مقامی فریق اپنی سرزمین کو ہمسایہ ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے اور یہ یقینی بنایا جائے گا کہ امن کے حوالے سے پاکستان کے تحفظات دور کیے جائیں، افغان طالبان کی جانب سے مسلسل اس بات کی یقین دہانی بھی کرائی گئی اور آج تک وہ یہ یقین دہانی کرا رہے ہیں، مگر افغانستان میں ٹی ٹی پی کے خلاف موثر اور منظم کاروائی نظر نہیں آتی، جبکہ افغان طالبان کی کابل میں حکومت قائم ہونے کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ  ہوگیا ہے، افغان طالبان کے توسط سے ٹی ٹی پی کے ساتھ گزشتہ برس نومبر میں مذاکرات کا سلسلہ چل رہا تھا،جب سیز فائر کا پہلا معاہدہ ہوا، اور دسمبر میں افغان وزیرداخلہ سراج الدین حقانی کی ثالثی میں مذاکرات کا آغاز ہو گیا، ان رابطوں کے نتیجے میں رواں برس مئی میں ٹی ٹی پی کی جانب سے سیز فائر کی مدت میں اضافہ کیا گیا، اس دوران کابل میں وفود کی سطح پر مذاکرات ہوتے رہے، اور سیز فائر کی مدت میں اضافہ بھی ہوتا گیا۔ اس سال جون میں مختلف قبائلی اور سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں پر مشتمل پچاس رکنی وفد کابل گیا، جہاں دو روز کے مذاکرات کے بعد ٹی ٹی پی نے جنگ بندی کے معاہدے میں غیر معینہ مدت کے لیے توسیع کا اعلان کیا، مگر مذاکرات کے ادوار میں ٹی ٹی پی کی جانب سے امن کی جو شرائط پیش کی گئیں، ان کی نوعیت ایسی تھی کہ ان پر بات چیت کی بھی گنجائش نہیں تھی، ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت کے عمل میں خلاف توقع افغان طالبان نے پاکستان کے حق میں اپنا اثرورسوخ استعمال نہیں کیا، اور اس دعوے اور وعدے کا عملی ثبوت نہیں دیا کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔یہ صرف ٹی ٹی پی تک محدود نہیں، افغانستان میں پاکستان اور چین مخالف دہشت گردوں کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے، افغانستان میں طالبان کی حکومت سے امید تھی کہ وہ  اس سلسلے کو ختم کرائے گی، مگر اس امید کو بھی مایوسی کا منہ دیکھنا پڑا۔ سلامتی کے ان نئے خطرات کی صورت میں پاکستان کے سیکورٹی اداروں کے چیلنجز اور ذمہ داریوں میں اضافہ ہوگیا ہے، ضروری ہے کہ اندرون ملک امن وامان کو یقینی بنانے کے لئے خصوصی اقدامات کیے جائیں، پاکستان کے سیکورٹی ادارے ماضی قریب میں ان چیلینجز سے کامیابی سے نمٹ چکے ہیں، اس سے اداروں کی مہارت اور اعتماد میں اضافہ ہوا ہے، چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ نئے خطرات سے پوری قوت اور صلاحیت سے نمٹا جائے گا، تاہم آپریشنل حل کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے پرامن حل کی کوشش بھی جاری رکھی جانی چاہئے اور افغان حکومت کے ساتھ یہ معاملہ مسلسل اٹھایا جانا چاہئے۔