مسئلے کا حل

ملکی معیشت کے حوالے سے کہا جارہا ہے کہ یہ مشکلات کا شکار ہے،تاہم ہر مسئلے کا حل ضرور ہوتا ہے اور یہی صورتحال آج بھی ہے۔ اگر ہم کفایت شعاری سے کام لیں تو بہت سے ایسے اخراجات ہیں جن سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے تاہم فیصلہ کن اقدامات کی ضرورت ہے،بچپن میں ہمیں کہانیاں سننے کا بہت شوق تھااور ہمارا خیال یہ ہے کہ ہر بچے کو یہ شوق لاحق ہوتا ہے اسلئے کہ ہماری دادیاں نانیاں بچوں کو سلاتے وقت کوئی کہانی ضرور سناتی ہیں او ربچے بھی ضد کرکے ان سے کوئی کہانی ضرور سنتے ہیں ایک کہانی جب ہماری دادی یا نانی سنایا کرتی تھیں تو وہ اس طرح سے شروع ہوتی تھی کہ ایک تھا بادشاہ۔ وہ بادشاہ بہت غریب تھا ہم سوچتے تھے کہ بادشاہ غریب کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ تو بادشاہ ہوتا ہے  ایک پورے بڑے ملک کا مالک۔ مگر کیا کریں دادی اماں جو کہتی تھیں تو سچ ہی کہتی ہوں گی ہم ایک عرصے سے سن رہے ہیں کہ ہمارا ملک بہت غریب ہے ہمیں ملک چلانے کے لئے دوسرے ملکوں اور اداروں سے قرض لینا پڑتا ہے اور اس قرض کی وجہ سے ہمیں بہت سے ملکوں کی جائز اور ناجائز باتیں ماننی پڑتی ہیں اور جب ہمیں قرض ملتا ہے تو اس میں کچھ شرائط بھی ہوتی ہیں ہمیں وہ شرائط بھی ماننی پڑتی ہیں اور وہ شرائط کچھ اس طرح کی ہوتی ہیں کہ ہمیں دی گئی قرض کی رقم میں سے ایک بڑا حصہ اسی ادارے کو واپس ہو جاتا ہے جس نے ہمیں قرض دیا تھامثال کے طور پر ہمیں امریکہ سے پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں تعلیم پر خرچ کرنے کیلئے کچھ قرض دیا گیا تھاجس معاہدے میں یہ امداد دی گئی تھی اس میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ امریکہ سے استاد آ کر ہمیں پڑھائیں گے جنکی تنخواہ وغیر حکومت پاکستان نے دینی ہوگی یہ وہ زمانہ تھا کہ جب ہمارے پروفیسر کی ماہوار تنخواہ 350 روپے ہوا کرتی تھی جبکہ ہمارے امریکی اساتذہ پندرہ سو یا دوہزار روپیہ تنخوا لیتے تھے یعنی جو امداد ہمیں امریکہ سے ملی وہ انکے اساتذہ کے ذریعے واپس ہو گئی اور یہ کہ ہر سال اساتذہ کی نئی کھیپ آتی تھی جن کا کرایہ خرچہ بھی حکومت پاکستان کے ذمہ تھااب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارے لئے گئے قرض یا امداد کو کس طرح امداد دینے والا ملک واپس لے لیا کرتا ہے حیرت تو اس بات پر ہوتی ہے کہ ہم غربت کا رونا بھی رو رہے ہیں تاہم  گاڑیوں کی بہتات ایسی کہ سارے ملک میں پہلے سے موجود سڑکوں کو چوڑا کرنا پڑا پھر ان سڑکوں کو دو رویہ کرنا پڑا اور پھر ان کو پانچ لین کی شاہراہوں میں بدل دیا گیا تاہم گاڑیوں کیلئے جس قدر گنجائش پیدا کی جارہی ہے وہ کم پڑتی جارہی ہے۔اس کی وجہ واضح طور  پر یہی ہے کہ ہم نے طرز زندگی بدل دیا ہے، اپنے بسوں اور ریل گاڑیوں کے سفر کو کاروں کے سفر میں تبدیل کیا  اس لئے توحال یہ ہے کہ سڑکوں پر کاروں کا اس قدر اژدھام ہے کہ جو راستہ کار کے ذریعے آپ طے کرتے ہیں وہی فاصلہ پیدل اس سے کم وقت میں طے کیا جا سکتا ہے‘بات سڑکوں اور ٹریفک کی ہو رہی تھی کہ باوجود سڑکوں کے تین تین لین اور یک طرفہ ہونے کے اگر ایک ٹریفک سگنل پر دو منٹ گاڑیوں کو رکنا پڑ جائے تو سڑک پر کاروں اور ویگنوں کا اژدھام کھڑا ہو جاتاہے اور اس اژدھام میں نئی نویلی کاروں کی کمی نہیں ہوتی۔ اب یہ تو سمجھنے کی بات ہے کہ یہ جو پٹرول کی قیمتوں میں کمی بیشی ہوتی ہے تو یہ رسد اور طلب کے باعث ہے۔ ایک بس تین سوارویوں کو جس قدر ایندھن میں مقام پر پہنچاتی ہے اس طرح اگر تین سو افرادالگ الگ کار میں سفر کریں تو ان کے پٹرول کا خرچہ کئی گنا زیادہ ہوگیا۔ بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں شہروں کے اندر انفرادی گاڑیوں کی بجائے بسوں کو رواج دیا گیا ہے۔چھوٹی گاڑیوں کی بہتات سے بہت سے مسائل جنم لیتے ہیں جن میں ماحولیاتی آلودگی سر فہرست ہے۔