حالات و واقعات کی مناسبت سے پالیسی پر عمل پیرا ہونا اور مشکلات و مسائل کو آنے والے وقتو ں میں آسانی اور مسائل کے حل کیلئے زینہ بنانے کی صلاحیت ہی کسی بھی قوم کو ترقی و کامرانی سے ہمکنار کرتی ہے اور اس جذبے یا عزم کی کمی سے مسائل و مشکلات کبھی ختم ہونے میں نہیں آتے۔ زندہ قوموں کی نشانی یہ ہے کہ وہ فخر کا باعث بننے والے لمحات کو مشعل راہ بنا تے ہوئے مزید کامیابی کی طرف سفر جاری رکھتی ہیں، اور سنہری ابواب رقم کرتی ہیں، جبکہ سانحات اور ناکامیوں سے سبق سیکھتی ہیں، اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا ازالہ اور ایسے اقدامات کرتی ہیں کہ ایسے سانحات کا اعادہ نہ ہو۔ کلینڈر پر 16 دسمبر کی تاریخ آتے ہی ملکی تاریخ کے سب سے بڑے سانحہ اور صدمے کی یاد تازہ ہوجاتی ہے، یہی وہ دن تھا‘جب 1971 میں سقوط ڈھاکہ کا سانحہ رونما ہوا تھا اور ملک کا مشرقی حصہ الگ ہو گیا تھا، اگرچہ روایتی طور پر اس سانحے کے غم کو تازہ کرنے اور پرانی غلطیوں کو نہ دہرانے کے عزم کا سلسلہ پچھلی نصف صدی سے جاری ہے، مگر محسوس ہوتا ہے ہم آج تک ان غلطیوں کا ازالہ تو دور، ان کا ادراک بھی نہ کر سکے،جن کے سبب اپنے قیام کے محض 24 سال بعد ہی عظیم سانحہ سے دوچار ہونا پڑا، اگرچہ ماضی میں رہنا کسی مسئلہ کا حل نہیں ہوتا اور بہتر یہی ہے کہ اپنی غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھا جائے، جب 1971 میں بنگلہ دیش وجود میں آیا تھا تو دنیا بھر میں اس کی پہچان ایک ایسے ملک کی سی تھی، جو قدرتی آفات میں گھرا ہوا تھا اور جس کی معیشت انتہائی نازک تھی، بے تحاشہ آبادی، کم شرح خواندگی، شدید غربت، محدود وسائل اور نہ ہونے کے برابر صنعتوں کے سبب اس کی بقا پر کافی سوالات تھے، مگر آج بنگلہ دیش جنوبی ایشیا میں ترقی کے ایک ماڈل کے طور پر جانا جاتا ہے‘اگرچہ پوری دنیا کی طرح بنگلہ دیش کو بھی اس وقت کئی طرح کے معاشی مسائل کا سامنا ہے اور وہاں بھی بے روزگاری اور مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے‘1971 میں اس کا جی ڈی پی منفی 5.5 تھا، جو اگلے سال منفی 14 کی سطح پر جاپہنچا، مگر دو سال بعد ہی بنگلہ دیش 9.6 شرح سے ترقی کر رہا تھا، 2020 میں کورونا لاک ڈاؤن کے سبب بنگلہ دیش کی شرح ترقی منفی 3.3 تھی، مگر آج یہ دوبارہ 5.8 پر پہنچ چکا ہے، اس طرح فی کس آمدنی 1970 کی دہائی کے مقابلے میں بیس گنا بڑھ چکی ہے، اور 2021 میں یہ 2500 ڈالر تھی، جبکہ اس کے مقابلے میں پاکستان میں یہ آج بھی 1500 ڈالر کی سطح پر کھڑی ہے، پاکستان کے جی ڈی پی کا حجم 346 ارب ڈالر ہے، جبکہ بنگلہ دیش کا جی ڈی پی 460 ارب ڈالر ہے، پاکستان کے فارن ریزرو اس وقت پست ترین سطح پر ہیں اور ملک پر دیوالیہ پن کی تلوار لٹک رہی ہے، جبکہ بنگلہ دیش کے فارن ریزرو کا حجم 35 ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہے، اس کے برعکس اگر دونوں ممالک کے حالات اور واقعات کا جائزہ لیا جائے تو ایک واضح فرق نظر آتا ہے‘ مثلاً پاکستان میں نوجوانوں کی تعداد آبادی کا لگ دو تہائی (16کروڑ)ہے، جبکہ بنگلہ دیش کی 16 کروڑ آبادی میں نوجوانوں کی تعداد 4 کروڑ ہے، اسی طرح پاکستان کی متنوع زمین بیش قیمت معدنیات اور خزائن کا مدفن ہے، جبکہ بنگلہ دیش قدرت کی اس فراوانی سے بھی محروم ہے، وہاں کی مرطوب موسم والی ساحلی زمین چند فصلوں کے لئے ہی موزوں ہے، جبکہ پاکستان کی زرخیزی دنیا بھر میں مثال ہے۔ قصہ مختصر ہمارے پاس نہ وسائل کی کمی ہے،نہ سہولتوں اور مواقع کی، کمی ہے تو بس اس بصیرت کی، جذبے اور دور اندیشی کی، جس کے تحت ملک کی معاشی بنیادوں کو استحکام دیا جاتا ہے، آج پاکستان کی پہچان اس کی ابتر معاشی حالت بن چکی ہے، اس وقت سب سے بڑی ضرورت ملک کو معاشی استحکام دینا ہے، جس کا راستہ سیاسی استحکام سے ہو کر جاتا ہے مگر اس کے لئے ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنے کی بجائے مل بیٹھ کر افہام و تفہیم سے معاملات کو سدھارنے کی ضرورت ہے۔