قدرتی گیس ایک درد سر

اس وقت قدرتی گیس کے ذخائر کی کمیابی کا رونا رویا جا رہا ہے اور بجلی کیساتھ اب گیس لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ بھی پورے ملک میں جاری ہے۔یہ تو ایک مانی ہوئی حقیقت ہے کہ قدرتی وسائل پر حد سے زیادہ بوجھ پڑے تو یقینا ان میں کمی واقع ہوتی ہے اور اس لئے تو کفایت شعاری سے ہی ملکی وسائل کی حفاظت کی جاسکتی ہے۔یعنی کفایت شعاری میں ڈھیر سارے مسائل کا حل ہے۔زندگی میں سب سے قیمتی چیز سکون ہے‘ سکون تب تک آپکی دسترس میں ہے جب تک آپ اپنی خواہشات کو محدود رکھ سکیں‘ ایک وقت تھا کہ ہمارے عام شہریوں کے پاس دنیاوی دولت نہ ہونے کے برابر تھی مگر سکون قلب کی دولت کے انبار تھے‘ میں ایک گاؤں کا باشندہ ہوں جہاں گھر چلانے کی ہر شے ہم اپنے ہاتھوں سے حاصل کرتے تھے۔ گھر میں کھانے کو غلہ ہمارے کھیتوں سے آتا تھا جس میں سارا خاندان اپنی پوری محنت صرف کرتا تھا۔ روٹی پکانے کو ایندھن ہم اپنے پیدا کردہ درختوں سے حاصل کرتے تھے۔دن بھر کام میں بتانے کے بعد شام کو حجرے میں دن بھر کی تھکان دور کی جاتی تھی‘ جہاں لوگ اپنے ماہیے ٹپے گا کر ایک دوسرے کا دل لبھاتے تھے‘پاکستان بننے کے بعد لوگوں کی تعلیم کی طرف بھی توجہ ہونے لگی‘ بچے مدرسوں میں تعلیم حاصل کرنے لگے اور جو تھوڑا بہت پڑھ سکتے تھے انہوں نے شام کو حجرے میں ماہیوں ٹپوں کے علاوہ صوفیانہ کلام بھی ہماری زندگی کا حصہ بن گیا۔ گاؤں میں ہر گھر کا دکھ سانجھا تھا‘کوئی فوت ہوجاتا تو چالیس دن تک اسکے ہاں پرسہ جاری رہتا‘ شادی بیاہ تو پورے گاؤں میں خوشی کا تہوار بن جاتا‘ گاؤں میں دوستیاں دشمنیاں بھی چلتی رہتی ہیں مگر ان میں بھی ایک رکھ رکھاؤ ہوتا تھا‘گاؤں کے دشمن صرف گاؤں میں ہی ہوتے تھے گاؤں سے باہر سارے ایک ہوتے تھے‘ ان سب کا حاصل یہ کہ اس زندگی میں ہر جانب سکون ہی سکون تھا‘جیسے جیسے ملک میں ترقی ہوتی گئی لوگوں کا رجحان سرکاری یا پرائیویٹ نوکری کی جانب ہو گیا‘ کھیتوں کھلیانوں کی طرف سے توجہ ہٹ گئی۔ نتیجہ یہ کہ وہ سکون جو اپنی راہی بیجی سے حاصل تھا وہ لٹ گیا۔گھر میں پیسے آئے تو وہ آٹے دانے پر خرچ ہونے لگے‘ جس نے ذہنی سکون چھین لیا۔ اب ہر وقت یہ خیال کہ پیسے ہوں تو گھر داری چلے‘ ادھر کہتے ہیں کہ مخصوص آمدن میں برکت نہیں ہوتی‘ یعنی ماہوار آئی ہوئی آمدن دنوں میں ختم ہو جاتی ہے اور اس کے بعد یہ سوچ کھا جاتی ہے کہ اگلے دن کیسے گزارے جائیں‘ بجلی کی آمد نے دیئے اور لالٹینوں کا دور ختم کر دیا اور جب بجلی کی قلت ہوئی تو ایک اور ذہنی پریشانی آ وارد ہوئی کہ اس اندھیرے کو کیسے دور کیا جائے اس لئے کہ دیئے لالٹین تو ماضی کا حصہ بن چکے‘ان اندھیروں نے ذہنی پریشانی میں مزید اضافہ کر دیا۔ بجلی کے بعد گاؤں میں قدرتی گیس آ گئی‘ بڑی خوشی ہوئی کہ اب لکڑیاں کاٹنے اور جلانے سے جان چھوٹی مگر یہ خوشی یوں عارضی ثابت ہوئی کہ کچھ ہی دنوں میں گیس نے بھی من موڑ لیا اور عین روٹی ہانڈی کے وقت گیس غائب‘اب ایک اور درد سر نے جنم لے لیا‘یوں وہ سکون قلب جو انسان کو حاصل تھا ان آسائشوں کی نذر ہو گیا‘اب تو شہروں میں بھی حالت یہ ہے کہ عورتیں ہاتھوں میں روٹی کے پیڑے لئے احتجاج کر رہی ہیں کہ گیس دی جائے اس گیس نے ہر طرف ہی سکون کی بربادی مچائی ہوئی ہے‘ سہولیات نے ہمیں اپنا اس قدر عادی بنا لیا ہے کہ جونہی ان میں ذرا سی بھی کمی ہوتی ہے تو ہماری چیخیں نکلنی شروع ہو جاتی ہیں‘ ہمارے ہاں تو خیر سے پہلے ہی کچھ نہیں تھا اور جو ہے اُس کو ہم بری طرح سے استعمال کر رہے ہیں‘ اور ہمارا یہ طرز عمل ہمیں جس ذہنی بے سکونی کی طرف لے جارہا ہے اس کا سوچ کر ہی ہول آتے ہیں۔