عالمی بینک کی جاری کردہ حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے چند شہروں میں فضائی آلودگی اُس خطرناک سطح سے بھی بلند ہو گئی ہے جس میں جانداروں کے لئے سانس لینا محفوظ نہیں ہوتا۔ اِس سلسلے میں پنجاب کے دارالحکومت لاہور اور خیبرپختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور کا تذکرہ انتہائی آلودہ شہروں میں کیا گیا ہے۔ پنجاب کے چند علاقوں میں فضائی آلودگی کا تیس فیصد حصہ بھارت سے آتا ہے جبکہ ستر فیصد فضائی آلودگی مقامی طور پر پیدا ہو رہی ہے۔ لاہور سے پشاور اور کراچی تک شہروں میں پھیلی فضائی آلودگی سنگین مسئلہ ہے‘ جس سے فوری طور پر نمٹنے کی ضرورت ہے کیونکہ کئی شہروں میں فضائی آلودگی انتہا کو بھی عبور کر چکی ہے۔ کسی ایسے ملک کی جانب بیرونی سرمایہ کار اور سیاح کیسے متوجہ ہو سکتے ہیں جہاں سانس لینے جیسی بنیادی ضرورت اور تقاضا ہی محفوظ نہ ہو۔ ذہن نشین رہے کہ فضائی آلودگی کی وجہ سے سانس کی بیماریاں‘ بالخصوص دمہ پھیل رہا ہے اور اِن کی وجہ سے اموات کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ فضائی آلودگی سے متاثر ہونے والوں میں بڑی تعداد بزرگوں اور کم عمر بشمول نوزائیدہ بچوں کی ہے۔توجہ طلب ہے کہ لاہور کا شمار دنیا کے اُن دس سرفہرست شہروں میں کیا جا رہا ہے جو ”بدترین فضائی آلودگی“ کا شکار ہیں۔ ان دس شہروں میں سے نو جنوبی ایشیا میں واقع ہیں۔ کراچی کے علاؤہ نئی دہلی‘ ممبئی اور بھارت کے کئی دیگر شہر بھی اِسی فہرست میں شامل ہیں۔ درحقیقت اس سال پشاور اور کراچی کے باسیوں نے لاہور کے لوگوں کے ساتھ مل کر زہریلی اور آلودہ ہوا پر اپنی تشویش کا اظہار کیا‘فضائی آلودگی اور اِس سے پیدا ہونے والے مسائل کا پائیدار حل اُن سبھی امور کی اصلاح ہے جن سے زہریلا دھواں پھیلتا ہے نیز فیکٹریوں سے دھویں کے اخراج اور موٹر گاڑیوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے فضائی آلودگی بڑھ رہی ہے۔ اگر اینٹوں کے بھٹے اور صاف ایندھن پر چلنے والا مؤثر پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم وضع کیا جائے تو فضائی آلودگی پر بڑی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔فضائی آلودگی اور اِس سے جڑے مسائل ”نئی بات“ نہیں بلکہ یہ ہمارے آس پاس برسوں سے موجود ہیں۔ حال ہی میں لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب حکومت کو حکم دیا تھا کہ وہ ہفتے میں تین دن سکولوں کی بندش سمیت ایسے اقدامات کرے جس سے سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد کم ہو اور محدود ٹریفک کے ذریعے فضائی آلودگی میں کمی کی کوشش کی جائے۔ اِس سلسلے میں عدالتوں اور ماحولیاتی ماہرین کی جانب سے دیگر اقدامات بھی تجویز کئے گئے ہیں اور حکومت نے ہر بار ان پر عمل درآمد کا وعدہ بھی کیا ہے لیکن ان پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے یا بہت محدود ہے۔ جہاں پالیسیاں بنائی گئی ہیں‘ وہاں پہلے سے ہی ناپسندیدہ صنعتوں‘ جیسا کہ اینٹوں کے بھٹوں اور موٹر گاڑیوں کی نگرانی سے اخراج روکنے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ ان میں سے کوئی بھی اس گڑبڑ کا ذمہ دار نہیں ہے اور کچھ جرمانے اور چالانوں کے ساتھ عدالتوں کو مطمئن کرنے کی بجائے ایک بڑے اور زیادہ مربوط پالیسی فریم ورک کی ضرورت ہے۔ فضائی آلودگی عوامی صحت کی ہنگامی صورتحال کے لئے ذمہ دار ہے۔