تائیوان پر امریکی اور چینی کشیدگی، صورتحال کتنی سنجیدہ؟

 چین اور امریکہ کی جانب سے تائیوان کے معاملے پر کشیدگی میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ صورت حال کتنی سنگین ہے اور کیا ایک اور جنگی تنازعہ دستک دے رہا ہے؟چین اور امریکہ کی جانب سے تائیوان کے معاملے پر کشیدگی میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے۔ چین تائیوان کو اپنا حصہ مانتا ہے اور اس عزم کا اظہار کرتا ہے کہ وہ جلد یا بہ دیر اسے بیجنگ حکومت کے زیرانتظام لے آئے گا، اس کے لیے چاہے طاقت کا استعمال ہی کیوں نہ کرنا پڑے، جب کہ دوسری جانب امریکہ کہہ چکا ہے کہ تائیوان پر چینی حملے کی صورت میں وہ تائیوان کا دفاع کرے گا۔ دو ہزار بائیس کا اختتام اس سہ جہتی تنازعے میں شدید کشیدگی کے موقع پر ہو رہا ہے۔تائیوانی صدر تسائی انگ وین نے اپنے رواں برس کے اختتام پر قوم کے نام اپنے ایک پیغام میں کہا، ''ہم جنگ سے صرف اس صورت میں بچ سکتے ہیں، جب ہم جنگ کے لیے تیار ہوں۔تسائی نے کہا، ''تائیوان کو اپنے دفاع کی صلاحیتیں بہتر بنانا ہیں۔ انہوں نے سن دو ہزار چوبیس سیلازمی فوجی سروس کی مدت چار ماہ سے بڑھا کر ایک برس کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جنگ کوئی نہیں چاہتا‘چین میں سن انیس سو انچاس میں خانہ جنگی کے بعد سے تائیوان کا مسئلہ جاری ہے۔ قوم پرست شکست کھانے کے بعد فرار ہو کر اس جزیرے پر جمع ہو گئے تھے، جب کہ فاتح کمیونسٹوں نے بیجنگ میں حکومت سنبھال لی تھی۔ تاہم جنگ کا امکان، جو کئی دہائیوں سے ہمیشہ موجود رہا ہے، اب امکان سے کہیں بڑھ کر دکھائی دے رہا ہے۔اگست میں چین نے پچھلی کئی دہائیوں کی سب سے بڑی فوجی مشقیں کیں، جن میں تائیوان کی مکمل ناکہ بندی حتی کہی اس پر حملے تک کی ریہرسل کی گئی۔تائیوان کے وزیرخارجہ جوزف وو کے مطابق، ''انہوں نے تائیوانی پانیوں کے قریب میزائل داغے۔ انہوں نے بڑی سطح کی فضائی اور بحری مشقیں کیں۔ انہوں نے سائبر حملے بھی کیے۔ سب کو جوڑٹا جائے، تویہ سب کچھ وہی ہے، جو وہ تائیوان پر حملہ کر کے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔چین تائیوان کے معاملے میں واضح موقف کا حامل ہے۔ تسنگووا یونیورسٹی سے وابستہ اور سابقہ چینی فوجی کرنل زہو بو کے مطابق،چین میں ہم یہی سمجھتے ہیں کہ تائیوان چین کا حصہ ہے اور ہمیں اسے اپنے ساتھ جوڑنا ہے۔انہوں نے مزید کہا، ''ہمارے سامنے سوال صرف یہ ہوتا ہے کہ کس ذریعے سے۔ کیا یہ پرامن طریقے سے ممکن ہے یا ہمیں طاقت کا استعمال کرنا ہو گا؟اکتوبر میں کمیونیسٹ پارٹی کی کانگریس کے موقع پر چینی صدر شی جن پنگ کہا تھا، ''ہم اس کے لیے ایک پرامن اتحاد کی خواہش رکھتے ہیں اور اس کے لیے پورے اخلاص کے ساتھ کوشش کر رہے ہیں۔مگر پرامن اتحاد فقط ایک خام خیالی ہے۔ تائیوان کی چینگ چی یونیورسٹی کے ایک تازہ عوامی جائزے کے مطابق تائیوان میں فقط چھ اعشاریہ چار فیصد افراد چین کے ساتھ فوری یا مستقبل میں کسی وقت اتحاد کے متمنی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر شی جن پنگ تائیوان کا حصول چاہتے ہیں، تو اس کا واحد راستہ طاقت کا استعمال بچتا ہے۔روس کی جانب سے یوکرین پر حملہ جنگ کے خدشے کے حقیقت میں بدل جانے کی ایک واضح مثال ہے۔ مگر اس جنگ میں یوکرین کی مزاحمت نے روس جیسی طاقت ور قوت کو مشکل میں ڈال دیا۔ ابتدا میں یہی کہا جا رہا تھا کہ یوکرین پر روسی حملے کا مطلب یوکرین پر قبضے ہو گا، تاہم نتیجہ اس کے برعکس نکلا۔ یوکرینی فوج کی جانب سے شدید مزاحمت اورنیٹو ممالک کی زبردست امداد نے اس جنگ کا پانسہ پلٹ کر رکھ دیا۔تائیوانی وزیرخارجہ جوزیف وو کے مطابق یہ جنگ تائیوانی عوام کے لیے ایک مثال تھی۔ ہم عالمی برادری پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہم بھی اپنے ملک کے دفاع کے لیے اتنی ہی بہادری سے لڑ سکتے ہیں۔اس بابت بین الاقوامی پیغام بہت اہمیت کا حامل ہے، تائیوان پر چینی حملے کی صورت میں تائیوانی مزاحمت فقط اس صورت میں ممکن ہے، جب بین الاقوامی برادری تائیوان کا ساتھ دے‘ خصوصا امریکہ۔امریکی صدر جوبائیڈن نے ایک دفاعی قانونی بل پر دستخط کیے ہیں، جس کے تحت تائیوان کو دس ارب ڈالر کی عسکری معاونت فراہم کی جائے گی۔ رواں برس متعدد مواقع پر صدر بائیڈن تائیوان کے حوالے سے سخت موقف اپناتے دکھائی دیے۔ انہوں نے یہ تک کہا کہ اگر چین نے تائیوان پر حملہ کیا تو امریکہ ایسی صورت میں مداخلت کرے گا۔چین کے معاملے میں  ری پبلکن اور ڈیموکریٹس سبھی متفق ہیں اور اسے اقتصادی، تکنیکی، سفارتی اور عسکری خطرہ سمجھتے ہیں۔ تائیوان کے لیے عسکری معاونت میں اضافے کے بل کی منظوری اسی اتفاق رائے کا ایک اظہار ہے۔ رواں برس امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی نے تائی پے کا دورہ بھی کیا تھا جب کہ امریکہ کی جانب سے چین پر سیمی کنڈکٹر ٹیکنالوجی کی برآمد پر پابندی بھی تائیوان کے لئے واضح ہوتی امریکی مدد کا عکاس ہے۔