شاہ بلیغ الدین اپنی نشری تقاریر میں ایک مقام پر بیان کرتے ہیں کہ خچر پر ایک بوڑھی بزرگ خاتون سوار ہیں ساتھ ساتھ ایک صاحب پیدل چل رہے ہیں ادب سے‘احترام سے‘ رکاب تھامے ہوئے! راہ چلتے ان صاحب کو دیکھتے ہیں تو جھک جھک کر سلام کرتے ہیں کوفے کے بازار ہی میں لوگ انہیں دیکھ کر ادب سے دہرے نہیں ہوجاتے تھے بلکہ دور دور تک یہی حال تھا اسلامی دنیا میں ہرجگہ ان کا بڑا نام تھا ان کو انتقال کئے ساڑھے گیارہ سو برس سے زیادہ ہوئے آج بھی ساری دنیا میں ان کا نام عزت واحترام سے لیا جاتا ہے بزرگ خاتون کو خچر پر بٹھا کر چلتے چلتے وہ کوفے کی ایک گلی میں رک گئے یہاں زرقہ نامی ایک واعظ رہتے تھے بزرگ خاتون کے پہنچنے پرزرقہ باہر نکل آئے محترم خاتون اور مرد با وقار کو دیکھا تو پوچھا کیسے زحمت فرمائی؟ مر د باوقار نے کہا ایک مسئلہ ہے اس پر آپ کی رائے چاہئے زرقہ نے کہا آپ کے ہوتے میری رائے کی کیا اہمیت ہے؟ انہوں نے کہا میں نے یہ فتویٰ دیا تھا لیکن ارشاد ہوا کہ میں زرقہ سے بھی پوچھونگی! زرقہ نے کہا حضرت! جو فتویٰ آپ نے دیا ہے بالکل صحیح ہے خاتون نے فرمایا اب گھر چلو میری تسلی ہوگئی۔ یہ بزرگ خاتون اور مرد با وقار ماں بیٹا تھے والدہ شکی مزاج کی تھیں بیٹے کی بات کو وہ کچھ زیادہ اہمیت نہ دیتی تھیں۔ کئی بار ایسا ہوا کہ بیٹے کو بلایا اور حکم دیا جاؤ یہ بات عمر بن زر سے پوچھ آؤ بیٹا ہر کام چھوڑ کر عمر بن زر کے پاس جاتا اور مسئلہ بیان کرتا وہ عذر کرتے بھلا میں آپ کے سامنے کیا فتویٰ دے سکتا ہوں کہاں آپ کا علم اور کہاں مجھ جیسے لتے ہوئے واعظ کی معلومات! جواب ملتا۔ نہیں مجھے والدہ کا حکم ہے کہ آپ کی رائے پوچھ آؤں آپ اپنی رائے بتا دیں اکثر ایسا ہوتا کہ عمر بن زر کو جواب معلوم نہ ہوتا ادب سے عرض کرتے کہ حضرت! آپ ہی اس کا جواب بتا دیں تو میں اسے دہرادوں لائق و فائق بیٹا مسئلے کا جواب بتاتا عمر بن زر اسے دہراتے اور سعادت مند بیٹا اسی دہرائے ہوئے جواب کوماں کی خدمت میں پہنچاتا کہ یہ عمر بن زر کی رائے ہے ماں مطمئن ہو جاتیں تو بیٹے کو بھی خوشی ہوتی لمحہ بھر کو بھی یہ خیال نہ آتا کہ میرے درس میں ہزارہا لوگ شریک ہوتے ہیں اور ایک دنیا مجھ سے استفادہ کرتی ہے مگر والدہ محترمہ میرے علم کی قدر نہیں کرتیں انہیں کبھی یہ خیال نہ ستاتا کہ ان کا بڑا مرتبہ ہے انہیں چھوٹے چھوٹے ملاؤں کے پاس نہیں جانا چاہئے ماں کی خوشی کو وہ ان سب باتوں پر ترجیح دیتے اور اشارتاً بھی کبھی اپنی والدہ سے یہ عرض نہ کرتے کہ وہ کچھ ان کے وقار کا بھی خیال رکھیں یہ سعادت مند بیٹے حضرت امام ابو حنیفہ ؒتھے ایک مرتبہ حضرت اسماؓ دوڑی دوڑی حضور اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئیں حضرت اسما‘ حضرت عائشہؓ کی بہن تھیں لیکن ان کی والدہ الگ تھیں عرض کیا یا رسول اللہؐ! میری ماں مجھ سے ملنے مدینہ آئی ہیں میں ان سے کیا سلوک کروں؟ اللہ کے نبیؐ نے ارشاد فرمایا اچھے سے اچھا سلوک کرو! حضرت اسماء نے یہ بات اس لئے پوچھی تھی کہ ان کی والدہ مسلمان نہ ہوئی تھیں اسی لئے حضرت ابوبکرصدیق ؓ نے انہیں چھوڑ دیا تھا ارشاد نبویؐ کا مطلب کچھ یہ تھا کہ ماں باپ مسلمان ہوں یا کافر ان کا ادب کرو ان کی خدمت کرو ہمیشہ ان سے نرمی اور محبت سے پیش آؤ۔۔“ اس منتخب نشری تقریر کا حاصل مطالعہ یہ ہے کہ ہم اگر حقیقی معنوں میں اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں تو پھر والدین کے حوالے سے حسن سلوک سے کوئی بھی غفلت نہیں برتے گا۔اس تحریر کے آغاز میں جس شخصیت کا تذکرہ کیاگیا ہے اپنی ماں کے ساتھ ان کے حسن سلوک اور ان کے آگے اپنی حیثیت سے بالکل بیگانہ ہونے سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اس ضمن میں کس قدر احتیاط کرتے تھے۔دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے میں اس پہلو کو مد نظر رکھتے ہوئے بہت سی کمزوریاں دیکھنے میں آرہی ہیں جو بجائے خود لمحہ فکریہ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ والدین کے احسانات کا بدلہ کوئی بھی اتار نہیں سکتا چاہے وہ عمر بھر اپنی بھرپور کوشش کرے کیونکہ ایک بچے کی پر ورش اور اسے کمال تک پہنچانے میں حد درجہ مشکلات اور صبر آزما مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔