مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ تاجر برادری سے خطاب کے دوران اس وقت وزیر داخلہ معین الدین حیدر نے خبر دار کیا تھا کہ فاٹا کاسٹیٹس کو توڑیں گے؛ انہوں نے کہا کہ فاٹا کو بھی ترقی دی جائے گی؛ اس کو پاکستان میں شامل کر کے اس کی تعمیر و ترقی کیلئے حکومت اپنا فریضہ سرانجام دے گی۔ وزیر داخلہ نے تقریباً ایک کروڑ سے زائد قبائل کو حقوق دلانے کی بات کی تھی جو کہ ایک قابل قدر بات ہے‘ یہ مرکز کے زیر انتظام سات قبائلی ایجنسیوں کی بات ہے جہاں انگریز سامراج کا بنایا ہوا نظام قیام پاکستان کے ستر سال تک چل رہا تھا‘ فرنگی سامراج نے قبائلیوں کی سرکوبی کیلئے بطور خاص ایف سی آر جیسا اندھا اور کالا قانون متعارف کرایا جس کے تحت پولٹیکل ایجنٹ جو ایجنسی کا سربراہ ہوتا ہے، کی مطلق العنانیت عہد جہالت کی یاد دلاتی ہے‘کئی ملزموں کو ناکردہ گناہوں کی پاداش میں مہینوں تو کیا برسوں پابند سلاسل رکھاجاتا تھا اور بغیر مقدمہ چلائے پورے خاندان کو سلاخوں کے پیچھے بند کیا جا سکتا تھا‘ یہ ایک ایسا قانون تھا جس کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا تھا۔ قصہ مختصر پی اے یعنی پولیٹیکل ایجنٹ کے پاس اتنے اختیارات ہوتے تھے کہ وہ پلک جھپکنے میں شیر کو لومڑی اور لومڑی کو شیر بنا سکتا تھا۔ اس کی ایک زندہ مثال ملاحظہ ہو۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کرم
ایجنسی کی انتظامیہ ایک ملزم کو گرفتار کرنے میں ناکام ہوئی تو اس کے کمسن بیٹے کو کئی مہینوں جیل میں بند رکھا گیا ایک ایسا کمسن بچہ جو جرم وسزا کے معنی بھی نہیں سمجھتا تھا۔ اس کو کئی مہینے حبسں بے جا میں رکھنا کہاں کا انصاف ہے؟ آئے دن کئی بے گناہ اس نا انصافی کی بھینٹ چڑھتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ آج اور کل کا نہیں یہ فرنگی سامراج کے زمانے سے چل رہا تھا۔ اس وقت میں نے بڑی تعریف کی اور لکھا جبکہ وزیر داخلہ مسیحائی کرنا چاہتے ہیں تو اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ ایک نگران حکومت نے یہ کارنامہ کر کے دکھایا کہ قبائل کو بالغ رائے دہی کا حق دلایا پہلے پہل مخصوص ”مشران اور ملکان“ کو ووٹ دینے کا حق حاصل تھا ہم نے اس وقت سوچا کہ اب جبکہ قبائل کو پاکستان میں شامل کیا جا چکا ہے تو انہیں ظاہر ہے صوبہ پختونخوا کا حصہ بنایا جائے گا۔ اس لئے ان کو یقینی طور پر صوبائی اسمبلی کی ممبر شپ بھی ملے گی اور ان کے نمائندگان صوبہ پختونخوا کی اسمبلی میں اپنے حقوق کے تحفظ کیلئے آواز اٹھانے کے اہل ہو جائیں گے پھر صوبے کو آبادی کے تناسب سے مرکز کی طرف سے مناسب مراعات بھی دی جائیں گی تاکہ قبائلی علاقوں میں تعمیر وترقی کا کام جو کہ پچاس سال سے نہیں ہوا جاری کیا جائے۔ خصوصاً تعلیم اور صحت کی مد میں قبائلی علاقہ جات بے حد کسمپری کا شکار ہیں حکومت لازماً اس کی طرف بھر پور توجہ دے گی۔ مگر اس کے باوجود بھی انہوں نے اپنے آپ کو ملک کا حصہ ہی سمجھا ہے۔ ملک کے دیگر حصوں کی طرح سہولیات کے حقداروں کو اب تک ان سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے۔سڑکیں، آبنوشی کے منصوبے اور بجلی و گیس جیسی نعمتوں کے حصول میں بھی وہ اب تک سب سے پیچھے ہیں۔ زیادہ تر قبائلی علاقہ بنجر اور نا قابل کاشت رقبے پر مشتمل ہے۔ پانی کی کمی اور آبپاشی کے منصوبوں کی قلت کی وجہ سے زیادہ تر زمینیں زراعت کے قابل نہیں ہیں اگر چہ اس کے باوجود بھی مقامی لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ان بنجر زمینوں سے فصل اگانے کیلئے جتن کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور وہ جن کو زمینوں سے
کچھ ہاتھ نہیں آتا وہ کاروبار تجارت یا ٹرانسپورٹ وغیرہ میں اپنی توانائیاں صرف کر رہے ہیں اور اپنے بچوں کا پیٹ پال رہے ہیں۔اگر قبائل کے باصلاحیت خطے پر حکومت معمولی بھی توجہ دینے میں کامیاب ہوئی تو یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ قبائل کی تعمیر سے ملک کی تعمیر وترقی میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے‘ تقریباً ایک صدی سے نظر انداز کئے گئے لوگ اہمیت پا کر اپنے حقوق کا حصول دیکھ کر ملک کیلئے مزید قربانیاں دینے کیلئے تیار ہو جائیں۔ بے یقینی اور ناانصافی کے بھنور سے نکل کر عزت نفس کی دولت سے مالا مال ہو جائیں تو کتنا ہی اچھا ہو۔ اس قسم کی اصلاحات کرنا حکومت کی دانائی اور لیاقت کی دلیل ہے‘ فرسودہ قوانین لارڈ میکالے کا نظام تعلیم اور ایکسپائرڈ پٹواری سسٹم جیسی اہم چیز یں بھی اصلاح طلب ہیں۔ ان میں ترامیم کر کے موجودہ دور کے تقاضوں کے عین مطابق بنانے میں بھی حکومت کی توجہ کی اشد ضرورت ہے۔ایسا کرنے سے نہ صرف مستقبل میں در پیش خطرات سے بہ آسانی نمٹا جا سکتا ہے بلکہ اصلاحات میں مزید تاخیر مزید نقصانات کا موجب بننے سے پہلے روکنا دانش مندی ہے۔مثبت تبدیلیاں اگر وقت پر کی جائیں تو بہترین نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں اور موجودہ حکومت سے عوام کی یہی توقع ہے۔