کراچی اور پشتو ادب

 پشتون صدیوں سے کھیتی باڑی اور تجارت کے پیشے سے وابستہ رہے ہیں جن ہنرمندوں کو مقامی طور پر اپنے ہنر کی قدر و منزلت یا مناسب پذیرائی دکھائی نہیں دی انہوں نے زیادہ کامیابی حاصل کرنے کیلئے پردیس کا رخ کیا‘کابل‘ قندہار‘پشاور‘کوئٹہ اور قرب و جوار سے ہندوستان کے مختلف شہروں تک انکا سفر ضروریات زندگی کا حصہ رہا‘انہی تجربات نے ان کے ادب کو گہرائی جذبات و حقیقت سے آشنا کیا‘کراچی جو آج پشتون محنت کشوں اور تاجروں کا سب سے بڑا شہر سمجھا جاتا ہے، پشتو ادب کے لئے ایک اہم مرکز بن چکا ہے  یہاں پشتو شاعری اور نثر کی ایک بھرپور روایت موجود ہے‘کراچی قدیم اور جدید ادب میں جدائی، محبت اور غربت کے احساسات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے‘ روشن کل کی خوش بینی بھی ان جذبات کا حصہ ہے‘ ٹپہ پشتو شاعری کی ایک قدیم صنف ہے جس نے کہاوت کی شکل اختیار کی ایک پشتو ٹپے کا ترجمہ کچھ یوں ہے ”ہندوستان کمائی کے لئے جری جوان جاتے ہیں‘ جو کام کے نہیں ہوتے وہ بھاگ آتے ہیں“کئی اور ٹپے  بھی ایسا ہی مضمون لئے ہوئے ہیں (ترجمہ) ”دوست  دور دراز کے سفر پر خواہ دکن  بھی چلا جائے نہیں بھولتا، تم ایک چھوٹی پہاڑی کے اس پار کیا گئے کہ مجھے بھول گئے“ایک اور شعر کا ترجمہ کچھ پوں ہے”تم نے رخت سفر باندھ لیا تو چھری لے کر میرا کام تمام کر دو، تیری جدائی ناقابل برداشت ہے“ جب پختون یہاں آباد ہونے لگے تو عزیز و اقارب نے ان کی مجبوریوں کو تسلیم تو کرلیا مگر ان کی جدائی کو برداشت نہ کر سکے اور یہ رد عمل شاعروں کی زبانی یوں سامنے آنا شروع ہوگیا‘فضل سبحان عابد جو ایک عرصے یہاں بسلسلہ روزگار مقیم رہے‘ ان کے  ایک پشتوگیت کا ابتدائی حصہ ملاحظہ ہو جس کو موسیقی میں ڈھلنے کے بعد بہت سراہا گیا”کراچی کی روشنیوں کے شہر میں گم میرے دوست۔اپنے دیہاتی گلی کوچوں کو نہیں بھولنا“ساحر آفریدی نے خواتین کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے ایک گیت لکھا جو اپنے دور میں شہرت کی بلندیوں کو چھو گیا”او منشی! میرے شوہر کے نام خط لکھ لینا تاکہ میں بھیج سکوں، کہ چھٹی لے کے آجا بالما“اس گیت نے نہ صرف ان خواتین کو رلایا جن کے شوہر کراچی میں بسلسلہ روزگار غریب الوطن تھے بلکہ کراچی اور دیگر شہروں میں مقیم مسافر پختونوں کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا جس کے جواب میں ڈاکٹر اسرار نے اس واقعے کے دوسرے رخ کو چھیڑ کر درد الفت کو غم روزگار میں شامل کر دیا۔ بقول فراز”غم دنیا کو غم یار میں شامل کر لو“ ڈاکٹر اسرار نے جو کچھ لکھا اس کا کچھ حصہ یوں ہے ”کراچی جا کے خوب کمائی کر لو تاکہ میں پڑوسنوں کی ہمسری کرسکوں“یہ تو پشتو ادب میں کراچی کے تذکرے کے کچھ نمونے تھے۔ اب پشتو ادب کے حوالے سے کراچی میں وقتاً فوقتاً کئی ادبی و ثقافتی تنظیموں نے جنم لیا جن کا مختصر تذکرہ کریں گے‘ ان میں سے اکثر ادبی تنظیمیں اب بھی فعال ہیں‘ ان میں سے چند کے نام یہ ہیں۔ پشتو فکری جرگہ سندھ‘ جرس ادبی جرگہ‘ اتفاق  ادبی جرگہ‘ لٹون پختو ادبی کلتوری سنگر‘ تورغر پختو ادبی کاروان‘ قلم پختو ادبی جرگہ‘ سوات ادبی گلونہ‘ توریالی پختو ادبی ٹولنہ۔کراچی میں اب بھی درجنوں پشتون لکھاری مختلف وسیلوں سے پشتو، اردو اور انگریزی ادب و صحافت سے وابستہ ہیں‘قیام پاکستان سے لے کر اب تک قومی سطح پر شہرت پانے والے چند قابل ذکرشعراء و ادبا میں افسانہ و ناول و سفرنامہ نگار،صحافی‘صدارتی ایوارڈ یافتہ،طاہر آفریدی، معروف ادیب‘صحافی و دانشورفہیم سرحدی“ ترقی پسند شاعر‘ صحافی ادیب اور عالمی پشتو کانفرنس کے روح رواں صدارتی ایوارڈ یافتہ،سلیم راز‘ صاحب طرز شاعرریاض تسنیم‘ معروف شاعر‘ محقق‘ نقاد اور فلسفی قیصر آفریدی، ناول نگار‘نقاد‘ محقق اور استادِ ادب ڈاکٹر محب وزیر‘،ممتازترقی پسند  شاعر،  صحافی اور براڈکاسٹر روخان یوسفزئی‘ معروف شاعر، ناول نگار، محقق اور نقاد ماخام خٹک‘ فعال ادبی شخصیت سرور شمال‘  زلان یوسفزئی، نور الاسلام سنگر‘ آفتاب بدر‘اقبال کوثر‘ پروین ملال‘عبدالرؤف عارف، فضل خالق غمگین،ساگر تنقیدی،بخت شیر انقلابی، بسمل کابل گرامی، سعید احمد گل، زر جان مداخیل، شاکر اللہ جلبل، امیر صادق جلبی وال‘ شیرین یار یوسفزئی، ظفر کریمی اور درجنوں دوسرے  شامل ہیں۔ کراچی میں پشتون ادباء اور شعراء  نے اپنی جہدوجہد اور فکر و فن کے ذریعے ادب کی دنیا میں نمایاں مقام حاصل کیا ہے ان کی تخلیقات نہ صرف ان کی ذاتی زندگی کے تجربات کی عکاسی کرتی ہیں بلکہ پشتون قوم کی اجتماعی روح کو بھی اجاگر کرتی ہیں‘  یہ ادب آنے والی نسلوں کے لئے روشنی کا مینار ثابت ہوگا۔