پاکستان طویل عرصے سے دہشت گردی کے سنگین خطرات کا سامنا کر رہا ہے اور یہ لہر ملک کے ہر پہلو پر گہرے اثرات مرتب کر چکی ہے‘ خاص طور پر خیبر پختونخوا وہ علاقہ ہے جو سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ دہشت گردی کے عواقب کو مجموعی طور پر اور خیبر پختونخوا کے تناظر میں مختلف پہلوؤں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: دہشت گردی کی وجہ سے ہزاروں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، جن میں معصوم شہری، سکیورٹی فورسز کے اہلکار, کچھ سیاسی شخصیات و ورکرز اور سرکاری حکام شامل ہیں۔ خیبر پختونخوا میں آرمی پبلک سکول پشاور جیسے دل دہلا دینے والے حملے نہ صرف مقامی بلکہ عالمی سطح پر گہرے اثرات چھوڑ گئے۔عوامی مقامات، تعلیمی ادارے، اور بازار دہشت گردوں کے حملوں کا خاص نشانہ رہے۔ عبادت گاہوں‘ حجرے اور جرگے تک کو نہیں بخشا گیا۔دہشت گردی نے پاکستان کی عموماً اور پختونخوا کی خصوصاً معیشت کو بری طرح متاثر
کیا‘سرمایہ کاروں کا اعتماد کم ہوا، کاروبار بند ہوئے اور سیاحت ختم ہو گئی۔مقامی میلے اور روایتی و ثقافتی سرگرمیاں دم توڑ گئیں۔حکومتی وسائل زیادہ تر دہشت گردی کے خلاف جنگ اور بحالی کے کاموں پر خرچ ہوئے، جس سے ترقیاتی منصوبے شدید متاثر ہوئے خاص طور پر خیبر پختونخوا میں لڑکیوں کی تعلیم کو روکنے کی کوششیں ہوئیں۔ سینکڑوں سکول اور درجنوں مدرسے اجڑ گئے اور طلبہ کا تعلیمی تسلسل متاثر ہوا اور رہی سہی کسر کورونا نے پوری کر دی۔ پختونخوا میں دہشت گردی کے باعث ہزاروں افراد بے گھر ہوئے اور اندرون ملک نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ متاثرین کے خاندان جذباتی اور نفسیاتی طور پر شدید مشکلات کا شکار ہوئے، جن میں مایوسی، ڈپریشن اور ذہنی دباؤ جیسے مسائل عام ہیں۔ یہ بیماریاں کئی نوجوانوں کے مستقبل کو تاریک کر چکی ہیں‘دہشت گردی نے پاکستان میں سیاسی کے علاوہ معاشی اور اقتصادی عدم استحکام کو فروغ دیا۔ حکومت پر دبا ؤبڑھا کہ وہ امن و امان کو یقینی بنائے۔خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے خلاف موثر کاروائی نہ ہونے پر مختلف سیاسی جماعتوں میں اختلافات پیدا ہوئے، جس سے قومی یکجہتی متاثر ہوئی‘پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں پر وسائل کی کمی کے باعث دبا ؤبڑھا، لیکن ان کی قربانیاں قابل تعریف ہیں‘ پڑوسی ممالک خصوصاً
افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات بے حد خراب ہوئے مگر ان کے ساتھ ملنے والی سرحدات اور تجارت کو بار بار دھچکا لگا یا گیا۔ شاعر کی حیثیت سے تو ہماری خواہش ہے کہ کہیں بھی خون خرابہ اور جنگ و جدل نہ ہو۔ بقول ساحر
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
جنگ بھوک، افلاس اور تباہی کے سوا کچھ نہیں ہے‘جنگ جیتنے والے اگر ہونے والی تباہی اور لاشوں کا حساب کریں تو اپنی جیت کو ہار ماننے پر مجبور ہو جائیں گے۔خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے خلاف کامیابی کو عالمی طاقتوں نے سراہا، لیکن کئی چیلنجز اب بھی باقی ہیں‘دہشتگردی کے خاتمے کیلئے ایک مضبوط اور جامع پالیسی تشکیل دی جائے جو ہر سطح پر موثر ہو‘ متاثرہ علاقوں میں تعلیمی اداروں کو بحال کیا جائے مقامی معیشت کو بحال کرنے کے لئے سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کئے جائیں اور سیاحت کو فروغ دیا جائے تاکہ امن اور خوشحالی کا خواب پورا ہو سکے۔