حال ہی میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر کی پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کو پیش کی جانے والی رپورٹ میں بہتر گورننس پر زور دیا گیا اور پاکستان کو ایک مضبوط ریاست میں تبدیل کرنے کی بات کی گئی تاکہ دہشت گردی کا خاتمہ کیا جا سکے۔ انہوں نے کہاہم کب تک گورننس کے خلاء کو فوجی شہداء کے خون سے پْر کرتے رہیں گے؟ یہ یقیناً عوامی پالیسی کا ایک انتہائی اہم مسئلہ ہے‘بیشک اچھی گورننس ہمیشہ سیاسی جماعتوں اور بین الاقوامی غیر ریاستی اداروں کے منشور میں سب سے اہم رہی ہے‘ اس کا بنیادی مقصد عوام کی فلاح ہے، جس میں امن اور سلامتی انتہائی اہم ہیں تاکہ دیگر بنیادی حقوق کا لطف اٹھایا جا سکے‘بدقسمتی سے پاکستان اپنی ابتداء سے ہی گورننس کے مسائل سے دوچار رہا ہے‘اس پس منظر میں گورننس کی دراڑوں کی شناخت بہت ضروری ہے‘یہ تاثر خاص طور پر سیاسی اکھاڑ پچھاڑ‘جرائم میں اضافہ‘انتہاپسندی‘ دہشت گردی‘ اقتصادی بحران‘ شناخت کا بحران‘اقتصادی فرق‘ سماجی ناانصافی اور فوجی و سول تعلقات کے دوران دیکھا گیا ہے‘ایک رائے یہ ہے کہ شکایات کے تئیں بے التفاتی‘ دراڑیں پیدا کرتی ہے اور بالآخر تشدد کی صورت میں بدل جاتی ہے‘ اس حوالے سے تھیورسٹ چارلس ٹیلی اور می اے ایڈیسن ویسلی کا کہنا ہے کہ معاشرے میں تشدد اقتصادی‘ سیاسی اور ثقافتی زندگی میں عدم مساوات کی گہری سوچ کا نتیجہ ہوتا ہے‘اس تصور پر مبنی تقسیم انصاف محرومی کا احساس پیدا کرتی ہے‘اسکالرز جیسے کہ فکویاما”سب سے پہلے ریاست“پر زور دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ریاست کو اپنے قوانین کو نافذ کرنے اور اپنے علاقے میں قانون و ترتیب کو برقرار رکھنے کی صلاحیت حاصل ہو، تاکہ کسی بھی خلفشار کو ختم کیا جا سکے۔ یہ تصور 9/11 کے واقعات کے بعد اہمیت اختیار کر گیا تھا، جب عالمی دہشت گردی اور نازک ریاستوں کے درمیان روابط کی بات کی گئی تھی۔ اس پس منظر میں نازک ریاستوں کو ناکام ریاستوں یا ٹوٹ پھوٹ کا شکار ریاستوں کے طور پر دیکھا گیا تھا جو انارکی کی افزائش گاہیں اور غیر ریاستی اداروں کے مسکن بن سکتی ہیں، جو قوانین اور اصولوں سے آزاد ہو کر کام کرتے ہیں‘ اب ناکام ریاستیں عالمی دہشت گردی کی افزائش گاہوں کے طور پر سمجھی جاتی ہیں جو عالمی سکیورٹی کے نظام کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، اسلئے تحقیق کا مرکز نازک، ناکام، یا ٹوٹنے والی ریاستوں پر ہے‘اکثر مطالعات نے یہ فرض کیا ہے کہ شدت پسندی اور انتہاپسندی کے چیلنجز گورننس کی ناکامی کے نتیجے میں ہیں‘ اسلئے ان چیلنجز کے انتظام کیلئے اچھی گورننس کے اہم اشارے اور اس کے مؤثر نفاذ کو سمجھنا ضروری ہے‘اس تناظر میں کئی مطالعات نے یہ ظاہر کیا ہے کہ پاکستان کے سیاسی نظام کو جو مرض لاحق ہے وہ کئی ایسے عوامل سے جڑا ہوا ہے‘ جو دراڑوں کا حصہ بن چکے ہیں‘ملیحہ لودھی نے اپنی کتاب ”پاکستان: Beyond The‘Crisis State“ میں پاکستان کی کہانی کو سمجھنے کیلئے پانچ اہم عوامل کی وضاحت کی ہے‘1) سیاسی اور غیر سیاسی یا غیر منتخب اداروں کے درمیان طاقت کا عدم توازن‘2) ایک جاگیردارانہ سیاسی حکم اور ثقافت جو کلائنٹیل سیاست کو فروغ دیتی ہے‘3) اولیگارک اشرافیہ کا ’ادھار‘ ترقی اور بیل آؤٹس پر انحصار، جو ملک کے مالی بحران کا حل پیش کرنے کی کوشش کرتی ہے اور اپنے نیٹ ورک کے حمایتیوں کو ٹیکس دینے کی مزاحمت کرتی ہے؛4) جغرافیہ کو قومی سلامتی کے اہداف کے حصول میں فائدہ کے طور پر استعمال کرنا اور غیر ملکی طاقتوں کا کردار‘5) ریاست اور معاشرے میں اسلام کے کردار پر نظریاتی مباحثوں کا تسلسل۔ان کے مطابق مذہبی دائیں بازو کو خوش کرنابھی ایک اہم عنصر ہے‘اس کے ساتھ ہی ادب کے اس ذخیرے میں شہری حکمرانی کی دراڑوں کو ایک اہم fault line کے طور پر اجاگر کیا گیا ہے‘ حسین حقانی کا کہنا ہے کہ پاکستان کی قومی سلامتی کی تعریف اور قومی ترجیحات ان دیگر عوامل میں سب سے اہم ہیں جو پاکستان کے نظریاتی نظام میں جھکاؤ کا سبب بنے ہیں‘ قومی نظریے کو نافذ کرنے اور اتحادیوں کیساتھ تعلقات قائم کرنے پر غیر متناسب زور دینا پاکستان کی داخلی کمزوریوں کی ایک بڑی وجہ ہے‘اس پس منظر میں وہ دراڑوں کا پتہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کے موجودہ نظام میں سب سے بڑی اور مستقل دراڑ سیاسی اتھارٹی کے استعمال کا تعین کرنے کیلئے ہے‘دوسری بڑی دراڑ نسلی اور صوبائی اختلافات ہیں‘ دراڑوں کا تجزیہ کرنے کے بعد بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا کیا جائے؟ اچھی گورننس ایک ایسے منظم اور ہموار طریقے سے ممکن ہے جو آئین، روایات اور قوانین سے واضح طور پر متعین ہو۔بہتر گورننس کا جوہر اس عمل کی تسلسل میں ہے، جس میں مختلف آراء اور ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے باہمی سمجھ بوجھ کے ذریعے سب کو بہتر بنانے کیلئے ماحول پیدا کیا جائے۔ چونکہ اچھی گورننس کی بنیاد کارکردگی، مؤثریت، شفافیت، احتساب، قانون کی حکمرانی اور فیصلہ سازی پر ہے تاکہ مقررہ اہداف کو وقت پر حاصل کیا جا سکے، اسلئے اس میں عوامی شعبے کے اداروں کی اپ گریڈیشن اور اپ اسکلنگ، وڑنری، قابل اور صاف ستھری قیادت کی ضرورت ہے جو ایک مضبوط اور میرٹ پر مبنی سول سروس سے تعاون کرتی ہو، پالیسی کو سماجی اور اقتصادی ترقی کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہوئے اور انتظامیہ کے ہائبرڈ انداز کیلئے کوئی جگہ نہ ہو‘معاشی بحالی کیلئے وسائل کی متحرک سازی، مالی توازن‘ٹیکس کے دائرہ کار کو بڑھانااور خواتین کی تعلیم اور ہنر کی تربیت۔یہ سب ضروری ہیں‘ ایک جامع تھیم انسان کی ترقی، مہارت کی ترقی اور 8-10 سال میں عالمی پیداوار کے سلسلے کے ساتھ انضمام ہے اور پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایک بڑی تجدید اور از سر نو ترتیب لازمی ہے۔
اشتہار
مقبول خبریں
گورننس کے خلا: کیا کیا جائے؟
مہمان کالم
مہمان کالم
مثبت اصلاحات بہترین نتائج کی حامل
مہمان کالم
مہمان کالم