آل فیملی ممبرز، آل فرینڈز

انسان نے مادی اشیاء کو جانچنے، ناپنے اور تولنے کے لئے ہر زمانے میں اپنی عقل اور سہولت کی خاطر مختلف اوزان، پیمانے، اعداد اور اشاریے بنائے ہیں۔جیسے سیر، من، گز، میل، میٹر، سینٹی میٹر، کلو گرام بلکہ ملی گرام اور نینو گرام۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ انسان نے غیر مادی اور غیر مرئی اشیاء کو بھی اپنی گرفت میں لینے کی کامیاب کوشش کی اور ایسے آلا ت ایجاد کئے جس سے بخار، بلڈ پریشر، بخارات، بجلی، ہوا کا دباؤ،پتہ نہیں کیا کیا نظر نہ آنے والی حقیقتیں بھی پیمانوں اور پیمائش کے زیر دام اور دم تحریر میں آ گئیں۔ زمانے نے زقند بھری اور انسانی شعور نے ایجاد و دریافت کے غرور میں ایک زبردست جست لگا کر خصوصاً موجودہ صدی میں انسانی جذبات و احساسات، سیاسی نظریات و افکار، معاشی تصورات اور سماجی حقائق و تعلقات تک کو ناپنے یعنی Quantify کرنے کی کوشش کی اور ترقی یافتہ ممالک میں اعلیٰ تعلیمی اداروں اور تھنک ٹینکس نے اس بارے میں زبردست کامیابی بھی حاصل کی۔ طبائع اور نظریات میں اختلاف کی وجہ سے ایسے پیمانوں، اشاریوں اور ان کے اغراض و مقاصد کے بارے میں مختلف آراء بھی سامنے آتی ہیں‘ تاہم ان پیمانوں کی تشکیل اٹکل پچّواور من موجی طریقے سے ہرگز نہیں ہوتی۔ اس کے لئے بہت زیادہ مغز سوزی، تحقیقی تگ و دو اورکثیر سرمایہ درکار ہوتا ہے۔ باربار کے عملی تجربوں اور تنقیدو اصلاح کے بعد ایسے پیمانے بنائے جاتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ان میں تبدیلی اور اصلاح کا عمل بھی جاری رہتا ہے۔ انسانی ترقی کا اشاریہ(Human Development Index)یعنی HDI ایک معروف پیمانہ  ہے جس سے کسی قوم اور ملک کے اندر انسانی ترقی، بقاء اور تہذیب و تمدن کی طرف انسانی قدم کے آگے بڑھنے کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ کسی معاشرے میں فرد کی خوشحالی کا اندازہ(Happiness Index) سے لگایا جاتا ہے۔ عالمی خوشحالی کے اشاریے کی رپورٹ 2024ء میں فن لینڈ سب سے زیادہ خوشحال ملک اور خوشحال معاشرہ قرار پایا تھا۔ کسی معاشرے میں جمہوری اقدار، جمہوری کلچر، شخصی آزادیاں اور کثرتیت (Pluralism) کو ناپنے کے لئے برطانیہ کے ایک ادارے نے عالمی جمہوری اشاریہ (Global Democracy Index) ترتیب دیا ہے۔ 2024ء میں اس رپورٹ میں ناروے بہترین جمہوری ملک قرار دیا گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ خوشی،آزادی، ترقی اور جمہوریت کوئی مادی بلکہ غیر مرئی اشیاء بھی نہیں ہیں، پھر بھی انسانی غور و فکر نے کمال محنت اور کمال مہارت سے اس طائر لاہوتی کو بھی زیروزبوں کر دیا۔ امن و امان کے مادی مظاہرو مناظر دیکھے اور سنے جا سکتے ہیں مگر یہ کہنا کہ کسی معاشرے میں قانون کی حکمرانی (Rule of Law)  کو کیسے ناپا جا ئے تو دیکھئے کہ انسان نے اس کے لئے کیا کیا ذیلی عنوانات تراش کر ایک قابل قبول اشاریہ بنا دیا ہے۔ مثال کے طور پر رول آف لاء انڈکس میں آٹھ بنیادی عناصر کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ مثلاً بد عنوانی کا نہ ہونا، بنیادی حقوق، سماجی انصاف، فوجداری انصاف، آزادانہ حکومت وغیرہ۔ ان آٹھ مبادیات کے تحت پھر مزید بیالیس شقیں دیکھی جاتی ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ جان جوکھوں کا کام ہے۔ انسانی فہم و ادراک میں غلطی کی گنجائش ہر وقت رہتی ہے مگر یہ عالمی اشاریے بنانا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں ہے۔ ان کو عالمی سطح پر اچھی خاصی پذیرائی اور عالمی وقعت ملتی ہے اور اس سے بسا اوقات اقوام عالم میں ایک طرح کی مسابقت، موازنہ اور کبھی کبھار عالمی دباؤاور پروپیگنڈے کا پہلو بھی نکل آتا ہے۔ وطن عزیز کے اداروں کی کارکردگی، ہمارے ہاں جمہوری ترقی یا انسانی خوشحالی یا عدالتوں کے عزت و وقار یا بدعنوانی کا تاثر یا کسی بھی اچھائی کے اشاریے میں ہماری پوزیشن ہمیشہ مایوس کُن رہی ہے۔ ہم اگر کبھی کبھار اچھے ہوں تو زیادہ سے زیادہ کسی افریقی ملک سے ایک آدھ درجہ بہتر پوزیشن میں ہو ں گے۔ اوپر جس انسان اور انسانی شعور کا ذکر کیا گیا ہے کہ یہ بہترین اور عجیب ترین کارنامہ سرانجام دیا ہے تواس سے مراد کوئی مسلمان، ہمارے تعلیمی اداروں کا کوئی پروفیسر یا ہمارے مولوی ہر گز نہیں ہیں۔ ایسے کارنامے ہم نے نہ مادی اشیاء کے ناپ تول میں سرانجام دیئے ہیں اور نہ ہی ان جدید ترین تصورات و افکار اور سماجی حقائق کو پرکھنے کے اشاریوں کی ترتیب و تشکیل میں ہمارا کوئی حصہ ہے۔  البتہ آج کل شادیوں کا موسم زوروں پر ہے اور ہم مقامی طور پر ایک اشاریہ ترتیب دے سکتے ہیں۔ پُرانے وقتوں میں شادی کے دعوت ناموں (کارڈز) پر ایک طرف چشم براہ اور دوسری طرف ج س م ف  (RVSP)لکھا ہوتا تھا جس کے نیچے ایک طرف خاندان کے بزرگوں اور دوسری طرف جوانوں کے نام یا رشتہ داروں میں ہر ایک گھر سے کوئی نہ کوئی جان پہچان والا نام ضرور لکھا جاتا تھا تاکہ خاندان کی یکجہتی اور اتحاد و اتفاق کے علاوہ دوست احباب کو رابطہ کرنے میں آسانی ہو۔ آج کل ان دونوں بنیادی عناصر کے نیچے خاندان کے چیدہ چیدہ افراد کی بجائے لکھا ہوتا ہے آل فیملی فرینڈز، آل فیملی ممبرز۔ میں نے اس کی وجہ معلوم کرنی چاہی اور کئی دعوت ناموں والوں سے تحقیق کی غرض سے پوچھا تو جواب ملا کہ چونکہ خاندان بہت زیادہ پھیل گئے ہیں اس لئے ایسا لکھ دیا گیا ہے۔ بعض اوقات دولہا دُلہن کے والد کو آپ نہیں پہچانتے اور کارڈ ان کے کسی عزیز کی طرف سے آ جاتا ہے  جیسا کہ ہمارے ہاں عام رواج ہے۔پھر واٹس ایپ پر پوچھنا پڑتا ہے کہ یہ صاحب کون ہیں؟ تو پتہ چلتا ہے کہ سگا بھانجا یا بھتیجا ہے۔ دراصل یہ وجہ ہر گز نہیں ہے کہ خاندان پھیل گئے ہیں بلکہ خاندانوں میں شکست و ریخت، توڑ پھوڑ، ٹوٹ پھوٹ بہت ہو چکی ہے۔ آپس کی ناچاقی، بُغض، حسد، کینہ، جلن، مادہ پرستی، لالچ اور خود غرضی انتہا کو پہنچ چکی ہے جس کا اظہار آل فیملی فرینڈز اینڈ ممبرز کے اشاریے میں کیاجاتا ہے۔ ماشاء اللہ اس عالمی اشاریے (انڈکس) میں ہم یقیناً پہلے نمبر پر آ سکتے ہیں۔ خاندان (فیملی) معاشرے (سوسائٹی) کی بنیادی اکائی ہے اور مغرب میں خاندان بری طرح ٹوٹ چکا ہے تاہم وہاں قانون کی حکمرانی، سماجی انصاف، مضبوط جمہوریت، فلاحی معاشرے کا انتظام اور شخصی آزادیوں نے ان کو تھام کے رکھا ہے۔ ہمارے ہاں وہ بھی نہیں ہیں اور کسی بڑی بھابھی کی جلن، کسی خالہ کا انتقام اور کسی پھوپھو کے اندر کا غیض و غضب  یا اُن کے شوہر نامدار حضرات کی زن مریدی سے معاشرے کا حُلیہ بگڑ گیا ہے۔ خواتین میں یہ جلن اور آگ اکثر رشتوں کے دینے نہ دینے اور مردوں میں یہ کمزوری بچوں کی تعلیم و ترقی میں حسد اور جائیداد میں حصص کے مطالبے سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ بے حسی،بے غیرتی اور باہمی قدر و احترام اور صلہ رحمی کے ختم ہونے کا بہترین اشاریہ ہے یعنی آل فیملی فرینڈز اور آل فیملی ممبرز۔ رہے نام اللہ کا۔