کشمیر کا معاملہ: انسانی حقوق  بارے آزمائش

کسی زمانے میں  ''زمین پر جنت'' کے نام سے مشہور مقبوضہ کشمیر کی محصور وادی، انسانی حقوق کی عالمگیریت کے تصور کے لئے سخت چیلنج بن گئی ہے کیونکہ 9 لاکھ سے زیادہ بھارتی قابض فوجیوں کو بے گناہ کشمیریوں کو قتل کرنے، اغوا کرنے، تشدد کرنے اوران کی تذلیل کرنے سمیت لامحدود اختیارات حاصل ہیں جس سے اس پورے علاقہ میں معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوچکے ہیں۔ کشمیریوں کو دہائیوں سے جس   ناگفتہ بہ اورکربناک صورتحال کا سامنا ہے، اس کو دیکھ کر انسانی حقوق کی ''آفاقیت'' سوالیہ نشان بن جاتی ہے۔تنازعہ1947 میں برصغیر پاک و ہند کی تقسیم سے پیداہوا۔  ریاست کشمیر بھاری اکثریت رکھنے والی مسلم اکثریتی ریاست تھی تاہم اس کے باوجود اسے بھارت میں شامل کئے جانے سے مسلم اکثریتی یہ ریاست ایک مقامی ہندو حکمران کے ماتحت تھی۔ تاہم، اکتوبر 1947 میں، بھارتی افواج نے تقسیم کے فارمولے اور کشمیری عوام کی خواہشات کی کھلم کھلاخلاف ورزی کرتے ہوئے علاقے پر حملہ کر کے قبضہ کر لیا۔بھارتی قبضے کے خلاف مزاحمت کے کشمیریوں کے عزم کی شدت کومدنظر ہوئے، بھارت اس معاملے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے گیا، جس نے بڑے غور و خوض کے بعد جموں و کشمیر کے خطے میں استصواب رائے کا انعقاد کر کے پرامن حل پر زور دینے والی قراردادیں منظور کیں، تاکہ مسئلہ کشمیر کو اس طرح حل کیا جائے کہ عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کر سکیں۔ تاہم، یہ جانتے ہوئے کہ بھارتی قبضہ لوگوں کی مرضی کے برعکس ہے، بھارت کشمیریوں اور عالمی برادری سے کئے گئے اپنے وعدوں سے مکر گیا۔ اس کے بعد سے، بھارت جموں و کشمیر پر اپنے ناجائز قبضے کو طول دینے کے لئے ایک کے بعد ایک سمیت تمام ممکنہ حربے استعمال کر رہا ہے۔ بھارت کی طرف سے مقبوضہ جموں و کشمیر پر  کئے گئے غیر قانونی قبضہ کو76سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے اس کے بعد بھی، بھارتی حکام  غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر پر اپنے قبضے کو مستحکم کرنے کے لئے غیر قانونی اقدامات اور  مقبوضہ جموں و کشمیرکے عوام کے حقوق کو مسلسل دبانے کا سلسلہ جاری  رکھے ہوئے ہیں۔ پرامن اور جمہوری طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کو اپنی مرضی کا  حق خود ارادیت استعمال کرنے دیا جائے۔ تنازعہ کے دونوں فریق، پاکستان اور بھارت پہلے ہی کشمیریوں کی مرضی کا پتہ لگانے کے لئے اقوام متحدہ کے زیر انتظام آزادانہ اور منصفانہ استصواب رائے پر رضامندی ظاہر کر چکے تھے۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے 12 فروری 1951 ء کوبھارتی پارلیمنٹ میں اپنے بیان میں کہا تھا کہ ''ہم نے اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں  ٹھایا اور اس کے پرامن حل کے لئے اپنی عزت کا لفظ دیا ہے۔ ایک عظیم قوم کی حیثیت سے ہم پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ اس سلسلہ میں  ہم نے مسئلہ کوکشمیر کے عوام پر چھوڑ دیا ہے اور ہم ان کے فیصلے کی پاسداری کے لئے پرعزم ہیں ''ان حالات میں جب بین الاقوامی امن اور انصاف کو یقینی بنانے کے لئے بین الاقوامی اداروں کی ساکھ دا ؤپر لگی ہوئی ہے، یہ ضروری ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جموں و کشمیر کے تنازع پر اپنی قراردادوں پر مکمل عمل درآمد کو یقینی بنائے۔ بھارت پر زور ددیاجائے کہ وہ  غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر  میں انسانی حقوق کی سنگین اور منظم خلاف ورزیوں کو ختم کرے اور غیر قانونی مقبوضہ جموں و کشمیر میں 5 اگست 2019 ء سے کئے گئے اپنے تمام غیر قانونی اور یک طرفہ اقدامات کو واپس لے تاکہ انسانی حقوق کی عالم گیریت میں کمزوروں اور مظلوموں کا اعتماد بحال کیا جا سکے۔

آئیے آج ہم یہ عہد کریں کہ حق خودارادیت کے کشمیریوں کے منصفانہ اور جائز مطالبے کے ساتھ اپنی مضبوط یکجہتی کا اعادہ کریں اور بھارت سے مطالبہ کریں کہ وہ کشمیری عوام کی مرضی کا تعین کرنے کے لئے اقوام متحدہ کے زیر انتظام آزادانہ اور منصفانہ استصواب رائے کے اپنے وعدے کو پورا کرے۔ ایک دن ظالموں کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا جائے گا اور آخرکار انصاف کا بول بالاہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔