سیلاب پاکستان میں بار بارآنے والی ایک قدرتی آفت ہے‘ جس نے تعمیرات‘ انسانوں اور جانوروں کے ذریعہ معاش کو تباہ کر دیا ہے‘ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مون سون کا موسم تیزی سے غیر متوقع طور پر بڑھتا چلا جا رہا ہے‘ سیلاب سے نمٹنے کی مؤثر حکمت عملیوں کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہے‘ تربیلا ڈیم کی کامیابی سے بصیرت حاصل کرنا اور بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کو مدنظر رکھ کر پاکستان سیلاب کے منفی اثرات کو کم کرنے کے لئے ایک اہم فریم ورک بنا سکتا ہے‘ سیلاب کے خاتمے میں تربیلا ڈیم کا کردار: تربیلا ڈیم جو کہ دنیا کے سب سے بڑے زمین سے بھرے ڈیموں میں سے ایک ہے‘ دریائے سندھ کے کنارے سیلاب کو کنٹرول کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے‘ 1976ء میں مکمل ہونے والا یہ ڈیم نہ صرف ہائیڈرو الیکٹرک پاور / بجلی پیدا کرتا اور آبپاشی کے لئے معاون ہے بلکہ سیلابی پانی کے اضافے کو بھی روکتا ہے‘ سوئٹزر لینڈ میں واقع لارج ڈیم آرگنائزیشن نے اپنی تحقیق میں اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ تربیلا ڈیم دریائے سندھ کے 16 فیصد پانی کو ریگولیٹ کر سکتا ہے تاہم برسوں کے دوران گارا / ترسیپ جمع ہونے سے اب اس کی صلاحیت 16 فیصد سے کم ہو کر 8 فیصد رہ گئی ہے جو کہ اس ڈیم کی اصل صلاحیت کا نصف ہے‘ اس لئے سیلاب پر قابو پانے کے لئے مؤثر نہیں ہے‘ تربیلا ڈیم نے نشیبی علاقوں کو تباہ کن سیلاب سے روکا ہے تاہم ڈیم کے ذخائر میں تلچھٹ Sedimentation نے گزشتہ برسوں کے دوران ڈیم کے پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کو کم کر دیا ہے جس سے سیلاب کنٹرول کرنے کی صلاحیت متاثر ہوئی ہے‘ علاوہ ازیں دوسرے بنیادی ڈیمز جیسا کہ دیامیر‘ بھاشا ڈیم کو بنانے سے سیلابی پانی کے دباؤ کو ڈیموں کے مابین تقسیم کیا جا سکتا ہے‘ تربیلا جیسے ڈیم دریا کے سیلاب کو کنٹرول کرنے پر توجہ مرکوز کرتے ہیں‘ اچانک سیلاب ایک مستقل چیلنج بنا ہوا ہے‘خاص طور پر کراچی‘ لاہور اور راولپنڈی جیسے گنجان آباد
شہروں میں‘ یہاں بارش کے پانی کی ذخیرہ کاری ایک تبدیلی کا کردار ادا کر سکتی ہے۔ 2001ء سے 2007ء کے دوران ضلع لکی مروت کے ضلع ناظم کی حیثیت سے راقم نے بارش کی کٹائی Rain harvesting کی 74 سکیمیں نافذ کیں‘اسے بعد میں بھی جاری رہنا چاہئے تھا لیکن بدقسمتی سے اس شعبے میں کچھ نہیں کیا گیا۔ بارش کے پانی کی ذخیرہ اندوزی میں بارش کے پانی کو دوبارہ استعمال کرنے کے لئے جمع کرنا اور ذخیرہ کرنا شامل ہے اور اس پانی کو گھریلو مقاصد یا زمینی ری چارج کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے‘ شہری علاقوں میں اس طریقے سے بنیادی ڈھانچوں میں ضم کیا جا سکتا ہے۔ برٹش راج میں جب انگریزوں نے 1849ء میں پنجاب اور سندھ پر قبضہ کیا اور بعد میں این ڈبلیو ایف پی موجودہ خیبر پختونخوا پر تسلط حاصل کیا تو انہوں نے بارش کی کٹائی‘ آبپاشی اور آبی ذخائر پر بہت زیادہ کام کیا‘ ان سب کی تفصیلات برٹش راج میں شائع کردہ رود کوہی (Rod Kohi) میں درج ہے۔ حوالے کیلئے رودکوہی جو 1907ء میں شائع ہوئی تھی‘ اسی کتاب سے رہنمائی حاصل کر کے راقم نے رود کوہی میں 74 سکیمیں دی تھیں‘ حکومت کو چاہئے کہ سی سی آئی (Council of Common Interests) کا اجلاس بلائے اور اس اجلاس میں یہ فیصلہ کرے کہ نجی و سرکاری نئے تعمیراتی منصوبے یا نئی کالونی اور ہاؤسنگ سوسائٹی بشمول 3 یا 7 مرلہ یا اس سے زائد پر بارش کے پانی کو جمع کرنے کیلئے ٹینک نصب کئے جائیں‘ جن سے پانی کو ضروریات زندگی کیلئے استعمال کیا جا سکے گا‘ اس کے علاوہ بجلی برائے گھریلو استعمال سولر لگائے اور ماحولیاتی خوبصورتی کے لئے Clime trees‘ اور پھلدار درخت بھی لگائے جا سکتے ہیں‘ چھتوں پر بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کا نظام: سرکاری اور نجی عمارتوں میں بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے خالی ٹینک لگائے جا سکتے ہیں۔ Permeable Pavements اور ری چارج کنویں: بارش کے پانی کو زمین میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے یہ ماحول آبی ذخائر کو بھرنے اور سطحی پانی کے جمع ہونے کی مقدار کو کم کرنے میں مدد کرتے ہیں اور زیر زمین پانی اونچا ہوتا ہے۔ (ہمایوں سیف اللہ خان سابق صوبائی وزیر اور رکن قومی اسمبلی بھی رہ چکے ہیں)