پشاور، خیبر پختونخوا کا دارالحکومت، حالیہ برسوں میں اسٹریٹ کرائمز کے حوالے سے ایک سنگین مسئلے سے دوچار ہے۔ ان جرائم میں سب سے زیادہ نمایاں موبائل اسنیچنگ، چھینا جھپٹی، اور آئس (Methamphetamine) کے عادی افراد کی جانب سے ہونے والی مجرمانہ سرگرمیاں ہیں۔ ان مسائل کے حل کے لیے نہ صرف فوری اقدامات کی ضرورت ہے بلکہ ایک طویل المدتی حکمت عملی بھی درکار ہے۔ گزشتہ مہینوں پولیس کی جانب سے کچھ اقدامات کئے گئے ہیں مگر وہ بہر طور ناکافی ہیں۔منشیات کے عادی افراد کی بحالی کے لیے خصوصی مراکز قائم کرنا ضروری ہے، جہاں انہیں علاج اور نفسیاتی مدد فراہم کی جائے۔ حکومت کو ان مراکز میں علاج کی مفت سہولت فراہم کرنی چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد اس سے مستفید ہو سکیں۔ یہ اقدام نہ صرف ان کی زندگیوں کو بہتر بنائے گا بلکہ جرائم کی شرح کو بھی کم کرے گا۔منشیات کے نقصانات اور جرائم کے خطرات کے بارے میں عوام میں شعور بیدار کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر آگاہی مہمات شروع کی جانی چاہئیں۔ میڈیا، اسکولوں، کالجوں، اور سماجی تنظیموں کے ذریعے لوگوں کو منشیات اور اسٹریٹ کرائمز کے معاشرتی اثرات کے بارے میں آگاہ کیا جا سکتا ہے۔ جس طرح ہمارے کمشنر ریاض محسود اس خطرے کو بروقت بھانپ چکے ہیں۔ اس سلسلے میں ہمیں کسی طور والدین کی غفلت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ اپنے بچوں کی تربیت اور نگرانی میں ناکام ہونے والے والدین کو اپنی کمیوں، کوتاہیوں اور بے احتیاطیوں کے بارے میں سوچنے کی اشد ضرورت ہے اور اس کا فورا ازالہ کرنے کیلئے کمر کسنی ہے۔ اس ظالم نشے کے عادی افراد کی زندگی کا سلسلہ خود کو یا دوسروں کو قتل کرنے پر منتج ہوتا ہے۔جرائم کی روک تھام کے لیے گلیوں، بازاروں، اور اہم عوامی مقامات پر پولیس اہلکاروں کی موجودگی بڑھانے کی ضرورت ہے۔ موثر گشت اور فوری ردعمل کے لیے موبائل پولیس اسکواڈز تشکیل دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔آئس اور دیگر نشہ آور اشیاء کی خرید و فروخت کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ ان کے نیٹ ورک کو ختم کرنے کے لیے خصوصی آپریشنز کیے جائیں اور ایسے مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔مجرموں کو سزا دینے کے عمل کو مؤثر بنانے کے لیے تیز کیا جائے۔ سزا کے یقینی ہونے سے جرم کرنے والوں کو باز رکھنے میں مدد ملے گی۔جرائم سے متاثرہ علاقوں میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے جائیں تاکہ مجرموں کی شناخت اور ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جا سکے۔ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال پولیس کے کام کو مزید مؤثر بنا سکتا ہے۔کمیونٹی واچ پروگرامز کے ذریعے عوام کو پولیس کے ساتھ شامل کیا جائے۔ مقامی افراد مشتبہ سرگرمیوں کی اطلاع دے کر جرائم کی روک تھام میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔نوجوانوں کو تعلیم اور روزگار کے مواقع فراہم کرنا اسٹریٹ کرائمز کی روک تھام میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ بے روزگاری اور مایوسی اکثر جرائم کی طرف لے جاتی ہیں۔ حکومت کو ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جو نوجوانوں کو مثبت تعلیمی، ثقافتی اور تفریحی سرگرمیوں کی طرف راغب کریں۔کھیلوں کے میدانوں، ثقافتی پروگراموں، اور دیگر مثبت سرگرمیوں کے ذریعے نوجوانوں کو جرائم سے دور رکھا جا سکتا ہے۔ یہ سرگرمیاں نہ صرف ان کی ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے فائدہ مند ہیں بلکہ معاشرے میں مثبت تبدیلی کا سبب بنتی ہیں۔میڈیا کے ذریعے جرائم کے خطرات اور ان کے سنگین نتائج کے بارے میں شعور اجاگر کرنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ بحالی کی کامیاب مثالوں کو نمایاں کرکے لوگوں کو ایک امید فراہم کی جا سکتی ہے۔پشاور میں اسٹریٹ کرائمز کا مسئلہ سنگین ضرور ہے، لیکن ان تجاویز پر عملدرآمد کرکے اسے کم کیا جا سکتا ہے۔ حکومت، قانون نافذ کرنے والے ادارے، عوام، اور سماجی تنظیموں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ بحالی کے اقدامات، آگاہی، اور قانونی کارروائی کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کے لیے روزگار اور مثبت سرگرمیوں کے مواقع پیدا کرکے ایک محفوظ اور پرامن معاشرے کی تشکیل ممکن ہے۔
اشتہار
مقبول خبریں
مجھے میری نوجوان نسل لوٹا دو
مہمان کالم
مہمان کالم
جشن خیبر‘ پشاور کا ایک روایتی میلہ
مہمان کالم
مہمان کالم
شمسی توانائی کے فوائد
مہمان کالم
مہمان کالم
آل فیملی ممبرز، آل فرینڈز
مہمان کالم
مہمان کالم
آبی ذخائر کی ضرورت اور اہمیت
مہمان کالم
مہمان کالم
سٹریٹ کرائمز اور سدباب
مہمان کالم
مہمان کالم
کشمیر کا معاملہ: انسانی حقوق بارے آزمائش
مہمان کالم
مہمان کالم