قومی اتفاق رائے کی اہمیت اور ضرورت

دو دن پہلے چیف آف آرمی سٹاف نے کراچی میں پاک بحریہ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے معیشت اور سکیورٹی کے چیلنجز کا ذکر کرتے ہوئے قومی اتفاق رائے کی ضرورت پر زور دیا، آرمی چیف کی طرف سے ایسے وقت میں قومی اتفاق رائے کی جانب توجہ دلائی گئی ہے جب ملک کی معاشی حالت روزبروز نازک تر ہوتی جا رہی ہے اور سکیورٹی چیلنجز میں بھی بتدریج اضافہ ہو رہا ہے،جب کہ سیاسی انتشار کا ماحول ان مسائل میں اضافے کا سبب بن رہا ہے، اس وقت ملک کی سیاسی صورت حال اس قدر نازک ہے کہ قوم کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا کہ اس کامستقبل کیا ہے‘دوسری طرف مہنگائی کا نہ رکنے والا طوفان ہے‘اشیائے خورد و نوش کے نرخوں میں آئے روز اضافے نے غریبوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے‘جس مشکل سے وہ گھر کا کچن چلا رہے ہیں اگر مہنگائی کی شرح میں کمی نہ آئی تو مکمل مایوس ہو جائیں گے‘ان حالات کے تناظر میں آرمی چیف کے خیالات قوم کی تسلی کا باعث بنیں گے‘ موجودہ نازک صورتحال سے نمٹنے کے لئے قومی سطح پر اتفاق رائے کو بنیادی تقاضا سمجھا جاتا ہے، تاہم قوم کے جن قائدین نے اس سوچ کو عملی صورت دینی ہے، وہ فی الحال یہ سوچ اختیار کرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں،ان کے خیالات میں سنجیدگی نہیں پائی جا رہی ہے جس کی ضرورت ہے‘ یہ دیکھنے، جاننے اور سمجھنے کے باوجود کہ ہماری قومی معیشت بدحالی کے انتہائی درجے کو چھو رہی ہے، اس میں بہتری لانے کے لئے جس جذبے کی ضرورت ہے اس کا بھی فقدان ہے‘سیاسی قیادت میں فکر مندی کی بظاہر کوئی رمق نظر نہیں آتی، ان کے ہاں آج بھی بدستور الزام تراشی اور بے معنی بیانیے اصل موضوع بنے ہیں، ملک اور قوم کے لئے معاشی مسائل بے قابو ہو چکے ہیں، مگر سیاسی قیادت قومی سیاست میں مسائل کے اسباب کا صحیح ادراک کرنے اور ذمہ داریاں قبول کرنے کی بجائے  ابہام بڑھانے کی روش پر گامزن ہے جو قوم کی مایوسیوں میں اضافے کا باعث بن ہے‘اس رویے کے ساتھ اندیشہ ہے کہ تنزلی کا یہ سفر ڈھلوان کا سفر ثابت ہوگا، اس رویے کو بلا تاخیر ترک کرنے اور قومی ہمدردی اور ذمہ داری کے احساس کو اپنانے کی ضرورت ہے، ہم پہلے ہی بہت وقت ضائع کر چکے ہیں،مزید اس کے متحمل نہیں ہو سکتے‘ گزشتہ برس کو سیاسی انتشار کا سال نہ بنایا جاتا تو یقین سے  کہا جا سکتا ہے، آج ہمارے معاشی حالات کہیں بہتر ہوتے، معیشت مستحکم ہونے کے قریب ہوتی‘یہ درست ہے کہ اس بحران میں کسی قدر عالمی عوامل بھی شامل تھے، مگر یہ ماننا حقائق سے انکار کے مترادف ہے کہ ہمارے سیاسی حالات نے ہماری بربادی کے لئے عمل انگیز کا کام کیا، بدقسمتی سے یہ سلسلہ بلا روک ٹوک جاری ہے‘معاشی بربادی کا عمل رکنے میں نہیں آرہا ہے، ان حقائق کے باوجود اگر کوئی سمجھتا ہے کہ قومی اصلاح کے جامع عمل کے بغیر معاملات کو سنبھالا جا سکتا ہے تو  اس سوچ پر واہ واہ کہنا چاہئے‘22 کروڑ سے زائد آبادی کو مہنگائی اور معاشی افراتفری سے بچانا اور معیشت کی ساکھ بحال کرنا ناگزیرہے اور یہ بھی دیکھنا ہے کہ معیشت کی موجودہ صورت حال میں کوئی کہاں تک دیوالیہ پن کے خطرے کو روک سکتا ہے، زرمبادلہ کے ذخائر کی حالت ڈھکی چھپی نہیں ہے، پیداواری سرگرمیوں کا زوال کوئی راز نہیں، برآمدات میں گراوٹ واضح نظر آرہی ہے، جبکہ بیرونی قرضوں کی کوئی امید دکھائی نہیں دے رہی، یہ حالات پاکستان جیسے ملک میں مضحکہ خیز ہیں، اپنے محل وقوع اور دیگر کئی حوالوں سے پاکستان کو اس خطے میں مرکز نگاہ ہونا چاہئے تھا، مگر ہم دیوالیہ پن کے کنارے پر بمشکل اپنا معاشی توازن قائم رکھے ہوئے ہیں، یہ حالات ملک میں حکومتوں کی ناکامی کا واضح ثبوت ہیں، اگرچہ یہ حالات کئی دہائیوں کے غلط فیصلوں کا مرکب ہیں‘ ہم نے حالات کی سنگینی سے کچھ نہیں سیکھا‘ ڈنگ ٹپا پالیسیوں کے ذریعے کچھ دکھاوے کے اقدامات کر کے اپنی کامیابیوں کے شادیانے بجانا چاہتے ہیں، حالانکہ موجودہ صورتحال میں یہ تازیانہ تصور کرنا چاہیے تھا، مگر قومی منظرنامے میں کسی جگہ احساس ذمہ داری دکھائی نہیں دیتا اور نہ ہی قومی اتفاق رائے کی اہمیت معلوم ہوتی ہے، اور اصلاح احوال تو اس کے بعد کا عمل ہے‘امید رکھنی چاہئے کہ موجودہ سیاسی و معاشی صورت حال میں قومی یک جہتی اور اتفاق رائے کی تجویز پر عمل کرنے کے لئے ہماری سیاسی قائدین مل بیٹھ کر کوئی بہتر راہ نکالیں گے۔