معاشی بدحالی‘غربت اور منصفانہ اُجرت

انسانی ترقی کے تناظر میں اگر پاکستان کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو یہ اُس مقام تک پہنچ چکا ہے جہاں اِسکی کارکردگی اپنے جیسے ترقی پذیر ممالک سے بھی بدتر دکھائی دیتی ہے۔ تصور کریں کہ 4 کروڑ 80 لاکھ (48ملین) پاکستانی ’غذائی قلت‘ کا شکار ہیں‘ 8 کروڑ (80ملین) افراد پڑھنا لکھنا نہیں جانتے۔ 9 کروڑ (90 ملین) افراد صحت کی سہولیات سے محروم ہیں اور پینے کے صاف پانی تک سب سے کم رسائی رکھنے والے ممالک میں پاکستان سرفہرست 10ممالک میں 9ویں نمبر پر ہے جبکہ پانچ سے سولہ سال عمر کے نصف سے زیادہ بچے تعلیمی اداروں کو نہیں جاتے۔ پاکستان کو غربت کے خاتمے نیز بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) یا احساس نامی دیگر فلاحی حکمت عملیوں کیلئے سالانہ 10ارب ڈالر سے زائد کی غیر ملکی امداد اور قرضے ملتے ہیں لیکن اِس کے باوجود بھی غربت کی شرح میں کمی کی بجائے اضافہ ہو رہا ہے جو ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔ اس پوری صورتحال کی وجہ بہت ہی سادہ ہے اور یہ ہے کہ دولت مند اور بے رحم اشرافیہ کے مفاد میں یہی ہے کہ پاکستان کے لاکھوں ہزاروں لوگ غربت میں مبتلا رہیں تاکہ استحصالی طبقاتی نظام کو برقرار رکھا جاسکے کرتا ہے۔ اگر قومی فیصلہ ساز اپنے تین موجودہ لیکن غیرفعال منصوبوں میں اصلاحات پر توجہ مرکوز کریں تو یہ عام شہریوں کی اکثریت کو باوقار زندگی فراہم کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ موجودہ قوانین میں ترمیم کی جائے اور ملک کی تمام مستحق آبادی کے لئے کم از کم اجرت مقرر کی جائے۔ ’ای او بی آئی‘ پنشن کو لازم کیا جائے جو سماجی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کسی بھی حکومت نے غربت کے خاتمے کے ان تین میکانزم میں سے کسی کی اصلاح اور نفاذ میں خاطرخواہ کوشش نہیں کی‘ غربت زدہ افراد کی بجائے فیصلہ سازوں کی ہمدردیاں سرمایہ داروں پر مرکوز رہتی ہیں جسکے نتیجے میں پسماندہ‘ مظلوم اور محروم طبقات پیدا ہوئے ہیں۔ پاکستان میں کم از کم پانچ لاکھ صفائی ملازمین ہیں جنہیں مختلف میونسپل کارپوریشنز‘ چھاؤنیوں‘ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈز اور سرکاری اداروں میں گزشتہ کئی سال سے یومیہ اجرت  پر رکھا گیا ہے‘کسی بھی ادارے میں افرادی قوت کو عارضی ملازمت پر رکھنا درحقیقت ”غیرقانونی“ ہے اسکی وجہ سے مزدور و محنت کش طبقے کا استحصال ہو رہا ہے‘ پشاور کے رہائشی ’شاہی کٹھہ‘ کی صفائی کرنے والے ایسے مزدوروں کو روزانہ انتہائی سخت مشقت و خطرات میں کام کرتے دیکھ سکتے ہیں۔ صفائی کے اِس عملے (خاکروب و کٹھہ قلی) میں سے نوے فیصد کو ماہانہ اُجرت کے طور پر پندرہ سے بیس ہزار روپے ملتے ہیں جبکہ خود حکومت ہی کی جانب سے آٹھ سے دس گھنٹے کام کرنے کا کم سے کم معاوضہ پچیس ہزار روپے مقرر کیا گیا ہے لیکن یہ قانونی اجرت تمام سرکاری اہلکاروں کو نہیں دی جاتی۔ یہ دیہاڑی مزدور نہ تو ’ای او بی آئی اور نہ ہی سوشل سکیورٹی کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں۔ اس طرح وہ اپنی پوری زندگی انتہائی غربت اور بدحالی میں گزارتے ہیں اور ریٹائرمنٹ کی عمر تک پہنچنے کے بعد معاشرے پر بوجھ بن جاتے ہیں۔ پاکستان بھر میں سرکاری محکموں‘ بینکوں‘ ڈاک خانوں‘ پیٹرول پمپوں‘ تجارتی اداروں اور افراد کو نجی سکیورٹی کمپنیوں کے ذریعے تقریباً دس لاکھ سکیورٹی گارڈز کی خدمات حاصل ہیں۔ سینیٹری ورکرز کی طرح یہ مزدور و محنت کش بھی ہمارے معاشرے کا ایک انتہائی استحصال شدہ‘ نظرانداز اور بے آواز طبقہ ہے‘انہیں ایک مہینے میں تیس دن تک روزانہ بارہ گھنٹے مجبوراً کام کرنا پڑتا ہے۔ اِنہیں ہفتہ وار تعطیلات سے محروم رکھا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ مہینوں تک اپنے بیوی بچوں سے مل نہیں پاتے۔ پاکستان میں کم از کم اجرت کے قانون کے مطابق انہیں پہلے آٹھ گھنٹوں کیلئے پچیس ہزار روپے اور اگلے چار گھنٹوں کیلئے مزید پچیس ہزار روپے ادا کئے جانے چاہیئں (اضافی کام یعنی اوور ٹائم کا معاوضہ معمول سے دوگنا زیادہ ادا کیا جاتا ہے) افسوس کی بات یہ ہے کہ 90 فیصد سکیورٹی گارڈز کو بارہ ہزار سے بائیس ہزار روپے ماہانہ تنخواہ ملتی ہے‘چند ایک سکیورٹی کمپنیوں کے علاوہ زیادہ تر سکیورٹی فراہم کرنے والے ادارے ’ای او بی آئی‘ یا ’سوشل سکیورٹی‘ کے ساتھ رجسٹر نہیں ہوتے۔ جسکی وجہ سے اُن کے ملازمین کو ریٹائرمنٹ کے بعد پینشن نہیں ملتی۔ جان بوجھ کر استحصال اور غربت میں گھسیٹے جانے والوں کی تیسری قسم وہ لوگ ہیں جو پورے پاکستان میں پٹرول پمپوں پر کام کرتے ہیں۔ یہ محنت کش دن رات چوبیس گھنٹے گاڑیوں میں ایندھن بھرتے ہیں پاکستان میں پندرہ ہزار سے زائد قانونی اور غیر قانونی پیٹرول پمپوں پر یہ ہزاروں ملازمین ہر ماہ پندرہ دن چوبیس گھنٹے کی شفٹ میں کام کرتے ہیں۔ پہلے آٹھ گھنٹے کیلئے پچیس ہزار روپے اور اوور ٹائم کیلئے دوگنی رقم کے حساب سے اگر اِنکی تنخواہ ادا کی جائے تو یہ ماہانہ ”62 ہزار 500 روپے“ بنتی ہے جس کے یہ حقدار ہیں مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ انہیں اس رقم کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ نہیں ملتا اور انہیں ”ای او بی آئی“ اور ”سماجی تحفظ“ کے حق سے بھی محروم رکھا جاتا ہے۔ اسی طرح صنعتی مزدور بھی متاثر ہیں جو کم اجرت ملنے اور ملازمتی تحفظ نہ ہونے کی وجہ سے دائمی معاشی بدحالی اور غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔خیبرپختونخوا کے مالاکنڈ ڈویژن کا حصہ ’ضلع شانگلہ‘ کی قریب ستر فیصد آبادی کان کنی کرتی ہے اور پاکستان میں جہاں کہیں کوئلے کی کانیں ہوں گی وہاں شانگلہ سے تعلق رکھنے والے مزدور ملیں گے اور اِس سے بھی زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ ہر سال 300 سے زیادہ کان کن مزدوروں کی لاشیں شانگلہ لائی جاتی ہیں۔ غربت کی وجہ سے کان کنی پر مجبور شانگلہ کے اِن محنت کشوں کا قصور سوائے غربت کچھ نہیں البتہ ایسے گاؤں کا مستقبل کیوں تاریک نظر آتا ہے جہاں بیواؤں‘ یتیموں اور معذور افراد کی اکثریت آباد ہے۔ پاکستان میں 186رجسٹرڈ اور 500سے زائد غیر رجسٹرڈ‘ غیر منظم‘ غیر محفوظ اور ٹھیکیداری نظام کے تحت چلنے والی کوئلے کی کانیں ہیں جن کی قدر مشترک یہ ہے کہ یہ اپنے ہاں مزدوروں کو کم از کم قانونی اجرت اور ای او بی آئی یا کسی بھی قسم کا سماجی تحفظ فراہم نہیں کرتیں‘ کان کنی کے بدقسمت مزدور گیس دھماکوں یا گرتی ہوئی چھتوں کی وجہ سے دب کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔ قانون یہ ہے کہ اٹھارہ سال سے کم عمر کے بچوں اور ساٹھ سال سے زیادہ عمر کے مردوں سے محنت مشقت بالخصوص کان کنی نہ کروائی جائے لیکن مجبوروں کا استحصال کرنیوالے کسی قانون یا اخلاقی قدر کا پاس نہیں کرتے۔ پاکستان میں صفائی ملازمین‘ سکیورٹی گارڈز‘ پیٹرول پمپ ملازمین اور کوئلے کی کان میں کام کرنیوالے ملازمین کو کم تنخواہ‘ زندگی بھر کا عدم تحفظ‘ تکلیف دہ غربت اور جان لیوا کام حالات و اوقات کار کیوں لاگو ہیں؟ یہ کارکن دیگر پاکستانیوں کی طرح برابر کے اور باعزت شہری کیوں نہیں ہیں؟ انہیں زبردستی وقار‘ جائز تنخواہوں اور انسانی حقوق سے کیوں محروم رکھا گیا ہے؟ انہیں ہر روز کوئلے کی کانوں اور گہرے کچے سیوریج گٹروں میں کیوں دھکیلا جاتا ہے؟ یہ سب کچھ اتفاقی نہیں بلکہ ذاتی مفادات کی اسیر اشرافیہ‘ ناکارہ بیوروکریسی اور انتظامی محکموں کے کردار کی وجہ سے ہے۔ پاکستان میں قانون کی حکمرانی اور انصاف کی بالادستی بہت سے معاشی مسائل کا حل ثابت ہو سکتی ہے جس کے بعد ہمیں مالی وسائل (فنڈز) کی بھیک مانگنے کی ضرورت نہیں رہے گی تاکہ غربت زدہ افراد کی زندگیاں بہتر بنائی جائیں جو درحقیقت ہماری اپنی ہی بنائی ہوئی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ہر نجی ملازم کیلئے کم از کم اجرت‘ ای او بی آئی (پینشن) اور سماجی تحفظ کی فراہمی کیلئے اصلاحات اور قواعد پر سختی سے عمل درآمد کے ذریعے محنت کش طبقے کی عذاب زندگیوں کو راحت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ ضرورت اِس بات کی بھی ہے کہ کم از کم مقررہ اجرت (پچیس ہزار روپے ماہانہ) پر نظرثانی کرتے ہوئے مہنگائی کے تناسب کے مطابق اِسے پچاس ہزار روپے ماہانہ مقرر کیا جائے جو اُن طبقات کیلئے منصفانہ اجرت ہوگی جو طویل عرصے سے غربت و ناانصافی (استحصال) کا شکار ہیں۔