جنگوں اور جنگی تیاریوں کا ماحولیاتی تباہی میں کردار

جنگوں، جنگی تیاریوں اور ہتھیاروں کے تجربات سے ماحول کو پہنچنے والے نقصانات پر آج تک بہت کم توجہ دی گئی ہے۔ جنگوں میں زیادہ اہمیت انسانی جانوں کے ضیاع کو دی جاتی ہے اور ماحولیاتی تباہی کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی طرف سے یوکرین پر حملے کے بعد نہ صرف براعظم یورپ پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں بلکہ یوکرین میں جاری تصادم کی وجہ سے دنیا بھر میں امن پسندوں کو یہ فکر بھی لاحق ہوگئی ہے کہ کہیں جوہری جنگ کا عفریت اپنے جبڑے کھولے انسانوں کی ہلاکت کا باعث نہ بنے۔انہیں خوف ہے کہ یوکرین اور یورپ کے سر پر منڈلا تے جنگی بربریت کے یہ سائے کہیں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لیں۔ ایک طرف اس ممکنہ جنگ سے انسانی جانوں کو پہنچنے والے نقصانات کے تخمینے لگائے جا رہے ہیں اور دوسری جانب دنیا بھر میں ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے کام کرنے والے کارکنان اس بات پر بھی غور کر رہے ہیں کہ یہ جنگ قدرتی ماحول کو کس طرح متاثر کر سکتی ہے۔امن پسندوں کا یہ بھی شکوہ ہے کہ جنگ سے ہونے والے انسانی جانوں کے نقصانات پر تحقیق کی جاتی ہے۔ اس سے انفراسٹرکچر کی تباہی پر بھی بات کی جاتی ہے لیکن بہت کم تحقیقی مقالے اور کتابیں اس بات کا تفصیل سے ذکر کرتی ہیں کہ کس طرح عالمی طاقتوں کی جنگی تیاریاں، جنگی مشقیں، ہتھیاروں کے تجربات اور دفاعی اخراجات ماحولیات کا جنازہ نکالتے ہیں۔کرس ہیجیز کی مشہور تصنیف ''ہر شخص کو جنگ کے بارے میں کیا جاننا چاہئے شاید ان چند ایک کتابوں میں شامل ہے، جو ماحولیاتی نقصان پر تفصیل سے بات کرتی ہیں لیکن اس کتاب کا محور بھی انسانی ہلاکتیں اور دوسرے عناصر ہیں۔ اس کتاب کا یہ دعویٰ ہے کہ صرف بیسویں صدی میں ایک سو آٹھ ملین افراد جنگوں میں ہلاک ہوئے، جو کہ ناقدین کے مطابق ایک محتاط اندازہ ہے کیونکہ یہ تعداد اس سے بھی کہیں بڑھ کر ہو سکتی ہے۔ جدید انسانی تاریخ میں جنگوں سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد کا اندازہ پندرہ ملین سے لے کر ایک ارب تک کا ہے۔ واضح رہے کہ یہ اعدادوشمار 2003 تک کے ہیں۔ اس کے بعد بھی دنیا میں بہت سارے مسلح تصادم ہوئے ہیں اور اس کے علاوہ کئی ملک خانہ جنگی کا شکار بھی ہوئے اور ان پر بیرونی حملے بھی کیے گئے۔ 2003کے بعد بھی ایک اندازے کے مطابق 15 لاکھ سے زائد افراد جنگ، مسلح تصادم اور خانہ جنگی کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ہیجز کی اس تصنیف میں جنگ کی ہولناکیاں تفصیل سے بیان کی گئی ہیں لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ بھی بتایا جائے کہ جنگ سے کس طرح ماحول اور ماحولیات کو نقصان پہنچتا ہے کیونکہ ہمیں زندگی گزارنے کے لئے ہوا سے لے کر پانی اور پانی سے لے کر تمام دوسرے قدرتی وسائل درکار ہوتے ہیں، جو قدرتی ماحول کا ایک حصہ ہیں۔ناقدین کا خیال ہے کہ ہمیں اکثر یہ تو بتایا جاتا ہے کہ اگر ایک پلاسٹک کا ڈبہ فلاں جگہ پر رکھ دیا جائے تو اس کا ماحولیات پر کیا اثر ہوتا ہے یا کوئی کچرے کا ڈبہ کسی سمندری حدود میں پھینک دیا جائے تو وہ ماحول کو کس طرح متاثر کرتا ہے۔ یعنی وہ عمل جو شاید ماحول کو اتنی بری طرح متاثر نہیں کرتے ہیں، ان کا تذکرہ تو ہوتا ہے لیکن جنگ، دفاعی اخراجات، جنگ کی تیاریاں، حربی مشقیں اور ہتھیاروں کے تجربات کس طرح ماحولیات کو ایک ناقابل تلافی تباہی کا شکار کر تے ہیں، اس پر بہت کم بولا اور لکھا جاتا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں ہتھیاروں اور تیل کی خریدوفروخت میں ملوث لابیا ں بہت مضبوط ہیں اور ان دونوں لابیوں کا آپس میں بہت گہرا رشتہ ہے۔ امریکی فوج دنیا میں سب سے زیادہ تیل استعمال کرتی ہے اور جس کے جلنے اور جلانے سے ماحولیات پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔بالکل اسی طرح پینٹاگون بحیثیت ایک ادارے کے دنیا کا وہ واحد ادارہ ہے، جو شاید سب سے زیادہ تیل استعمال کرتا ہے۔ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ چند جنگی طیاروں میں جتنا ایندھن استعمال ہوتا ہے وہ شاید روڈ پر چلنے والی سینکڑوں بسوں یا ممکنہ طور پر ہزاروں بسوں سے بھی زیادہ ہو۔کیوں کہ دنیا بھر کی مسلح افواج اور ان کے اضافی تربیت یافتہ دستے عالمی افرادی قوت کا ایک اچھا خاصا حصہ ہیں، اس لیے یہ تصور کیا جاتا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی پھیلانے اور ماحول کو خراب کرنے میں ان کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں بڑے ممالک کی مسلح افواج کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ اسی طرح کیونکہ یہ افواج کھربوں ڈالر خرچ کرتی ہیں اس لیے اس بات کا بھی امکان ہے کہ اس خرچ سے ماحولیات پر بہت برے اثرات پڑتے ہیں۔مثال کے طور پر کر س ہیجز کی مذکورہ بالا کتاب میں کیے گئے ایک دعوے کے مطابق امریکہ نے 1975 سے لے کر 2003 تک اپنے اپنی قومی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی)کا اوسطاً تقریبا تین سے چھ فیصد حصہ قومی دفاع پر لگایا ہے، جو وفاقی بجٹ کا سالانہ 15 سے 30 فیصد حصہ بنتا ہے۔اکیسویں صدی کے ابتدائی سالوں میں یہ بجٹ تقریبا 350 بلین ڈالر سالانہ تھا۔ جب کہ تعلیم کے لئے سالانہ 60 بلین ڈالرز اور ریاستی و بین الاقوامی معاونت کے لیے صرف 15 بلین ڈالر مختص تھے۔ انیس سو چالیس سے لے کر انیس سو چھیانوے تک امریکہ نے فوج پر 16۔3 ٹریلین ڈالر خرچ کیے، جس میں سے پانچ ٹریلین ڈالر سے زیادہ جوہری ہتھیاروں پر خرچ کیے گئے تھے۔ اتنے وسیع پیمانے پر اخراجات سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے ماحولیات پر کیا اثرات مرتب کیے ہوں گے۔ یہ خرچہ اس کے علاوہ ہے جو عراق اور افغانستان کی جنگوں میں کیا گیا۔ بران یونیورسٹی کے واٹسن انسٹی ٹیوٹ کے مطابق امریکہ ان جنگوں میں پانچ ٹریلین ڈالر سے زیادہ خرچ کر چکا ہے۔ کچھ اور اندازوں کے مطابق یہ خرچہ آٹھ ٹریلین ڈالر کا ہے۔جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عالمی طاقتوں نے بہت سارے معاملات میں اقوام عالم کے مفادات کی بجائے اپنے مفادات کے تحفظ پر توجہ مرکوز رکھی ہے چین‘ امریکہ اور روس نے اپنے دفاعی اخراجات کو جس پیمانے پر پہنچایا ہے اس سے دیگر ممالک عدم تحفظ کا شکار بھی ہو سکتے ہیں اور اسلحے کی دوڑ میں حصہ لیتے ہوئے اگر ممالک ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں تو یقینی طور پر معاشی مشکلات کی صورت میں سامنے آئے گا ایسے حالات میں کہ جب کورونا وباء نے عالمی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے یوکرائن جنگ نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے اور فی الحال اس جنگ کا خاتمہ قریب نظر نہیں آرہا یعنی رواں سال بھی یوکرائن جنگ کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہوں گے خاص کر ترقی پذیر ممالک کو اس سلسلے میں زیادہ مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔