مشینوں کی حکومت 

مشین نے جہاں انسان کے بہت سے کاموں میں آسانیاں پیدا کی ہیں وہاں بہت سی دشواریاں بھی پیدا ہو گئی ہیں۔ مشینیں بجلی سے چلتی ہیں اور اس مد میں جہاں تک ہماری بجلی کا تعلق ہے اس کا کو ئی اعتبار بھی تو نہیں کہ کب ہمارے ساتھ رابطہ منقطع کر لے۔ آپ موڈ میں بیٹھے ہیں کہ کچھ لکھائی کا کام کر لیں اور جو نہی آپ نے کمپیوٹر ہاتھ میں لیا اور جملہ خیالا ت کو کمپیوٹر کے حوالے کرنے کا عمل شروع کیا۔ بجلی جواب دے گئی اور بجلی کے جواب دے جانے  سے  آپکے سارے خیالا ت کا ستیاناس نکل گیا۔ اب جو بجلی نے دوبارہ آپ کا ساتھ دینے کا عمل دہرایا تو آپ سوچتے رہ جاتے ہیں کہ ہم کیا لکھنا چاہتے تھے اور اس کا  تسلسل کہاں سے ٹوٹا تھا۔ بس آپ کے سارے خیالات ایسے گڈ مڈہوئے کہ دوبارہ ان کا مجتمع کرنا کارے دارد ہو گیا۔ایسے ہی آپ نے یہ کا م اب کمپیوٹر کے ذریعے کرنا ہے تو یہ مشین بھی بجلی کی محتاج ہے  اور بجلی واپڈا کی محتاج ہے یو ں محتاجیوں کے اس دوغلے نے آپ کے خیالات کا ستیا ناس ما ر دیا اور آپ جو کرنا چاہتے تھے وہ ہوا ہو گیا۔ قلم کا غذ کو یہ ہے کہ اپنے ہاتھ میں سب کچھ ہے۔خیالات آتے جاتے ہیں اور قلم قرطاس پر نقوش بکھیرتا  چلا جاتا ہے اور آپ کے خیالات آسانی سے کاغذکی سطح پر نقش ہو جاتے ہیں۔جوخیالات کی رو آپ کے ذہن میں رواں ہے وہ کاغذ پر ثبت ہو جاتی ہے۔ مگر جب آپ ایک کمپیوٹر کے ذریعے یہی کام کرتے ہیں تو اس میں اگر بجلی رکاوٹ نہ بن جائے توکیا بات ہے۔ کہ آپ کی بد خطی بھی قاری کی نظر میں نہیں آ سکتی  اور آپ کے خیالا ت بھی آسانی سے قارئین تک پہنچ جاتے ہیں۔ مگر مجبوری صرف یہی ہے کہ سب کچھ آپ کے ہاتھ میں نہیں ہوتا۔ آپ کے ساتھ بجلی کا تعاون بہت ہی ضروری ہے۔ گرمی کا موسم ہو تو رات کے کسی بھی حصے میں  بجلی آپ کی نیند میں خلل ڈا ل سکتی ہے اور آپ پسینہ پونچھتے ہوئے اور ہاتھ کا پنکھا لئے ہوئے صحن میں ٹہل  رہے ہوتے ہیں اور  بجلی کو دعائیں دے رہے ہوتے ہیں کہ اس نے آپ کو  اس زبردستی کی ورزش پر مجبور کیاہے۔ ویسے قصوربجلی کے محکمے کا بھی کم ہی دکھائی دیتا ہے اس لئے کہ ہم لوگوں نے  بجلی کنکشن کا فارم بھرتے ہوئے اگر اپنے گھر کے لئے دو بلب کا لکھا اور ہم بلبوں کے علاوہ بھی بہت کچھ کر رہے ہیں اور مزے کی بات یہ کہ بجلی والوں کی جانب سے دیا گیا میٹر بندکر کے ہم سردیوں میں ہر کمرے میں  ہیٹر بھی جلا رہے ہوتے ہیں اور گرمیوں میں مکان کے ہر کمرے میں پنکھوں کے علاوہ  اے سی بھی چل رہے ہوتے ہیں تو جو لوڈ واپڈا کے ٹرانسفارموں  پر پڑ رہا ہے  وہ روزانہ کسی نہ کسی ٹرانسفامر کو جلا رہا ہوتا ہے اس لئے کہ اگر پچیس  کے ٹرانسفارمر پر ہم  ہیٹر بھی جلا رہے ہوتے ہیں تو  واپڈا والے کیا کر سکتے ہیں ان کی بجلی نے تو جانا ہی جانا ہے۔ اس لئے کہ ان کو ٹرانسفارمر تو ہمارے دیئے گئے لوڈ کے مطابق لگانا ہے اور ہم دو بلب لکھوا کر ہر کمرے میں ہیٹر بھی جلا رہے ہوتے ہیں تو بجلی کے تار یہ لوڈ کہاں تک برداشت کریں گے۔ سو  ٹراسفارمر جل رہے ہوتے ہیں اور ہم بجلی  نہ ہونے کی شکایت کرتے رہتے ہیں جب کہ غلطی  تو ہماری ہوتی ہے۔ اور بجلی کی چوری تو ایک معمولی بات سمجھی جاتی ہے۔ ہم نے ایک دفعہ اپنے ایک پروفیسر کو کہا کہ سر آپ بھی میٹر بندکروا دیا کریں تو انہوں نے بہت ہی قیمتی  فقرہ فرمایا کہ کہ میں تو ایک شخص کی چوری کا بھی آخرت میں جواب نہیں دے سکتا تویہ بیس کروڑ کی چوری کا میں کیسے جواب دوں گا۔ ہم یہ خیال نہیں کرتے کہ بجلی تو ایک شخص کی ملکیت تو نہیں یہ تو آج بیس کروڑ پاکستانیوں کی ملکیت ہے اور اس کی چوری کا  مطلب یہ کہ ہم  بیس بائیس کروڑ لوگوں کی چوری کر رہے ہیں جس کا جواب ہمیں بہر حال دینا ہو گا۔مگر کاش کہ یہ معمولی سی بات ہماری سمجھ میں آجائے۔ اور ہم  22کروڑ لوگوں کی ملکیت کی چوری نہ کریں اور جو بجلی ہم جلا رہے ہیں اس کی قیمت بھی ادا کریں  تاکہ یہ سلسلہ چلتا رہے۔ اگر ہم سارے  ہی بجلی کی چوری کریں گے تو یہ سہولت جو ہمیں مل رہی ہے یہ نہیں مل پائے گی۔ ہم جن چیزوں کو بہت معمولی سمجھ رہے ہیں یہ در اصل اتنی معمولی نہیں ہیں۔